موسم میں خنکی ایک طرف بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف سیاسی درجہ حرارت میں دھیرے دھیرے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے کوئٹہ کے زرغون روڈ ہاکی چوک پر جلسہ کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دے دی ہے۔ جے یوآئی ایف اور پشونخوا ملی عوامی پارٹی کے لئے یہ بڑا امتحان ہوگا کیونکہ کوئٹہ میں 11 اکتوبر کو ہونے والا یہ پہلا جلسہ کامیاب ہوتا ہے تو اس کا اثر تحریک کے باقی جلسوں پر بھی پڑے گا اور لگ یہی رہا ہے کہ قوم پرست جماعتوں کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی یہاں پربڑا اجتماع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن کیا کوئٹہ کے جلسہ کی کامیابی باقی جلسوں کی کامیابی کا بھی ضامن ہو گا کیونکہ ضروری نہیں کہ پہلی گیند پر چھکا مارنے والا اگلی گیندوں پر بھی چھکے مارے بلکہ اس کے آؤٹ ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔
پی ڈی ایم 11 جماعتوں کا غیر فطری اتحاد ہے ۔غیر فطری اس لحاظ سے کہ اس میں ہر جماعت کا نظریہ دوسرے سے مختلف ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کل کون سی نظریاتی سیاست ہوتی ہے سیاست تو ساری مفاداتی ہوچکی ہے اگر ایسا نہیں تھا تو کل کے حریف یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کبھی ایک میز پر نہ بیٹھتے۔ یہ صرف ان کے مفادات ہیں جو انہیں اکٹھا کئے ہوئے ہیں ورنہ کسی بھی وقت بھان متی کا یہ کنبہ بکھر سکتا ہے۔ویسے بھی پیپلز پارٹی کے کیمپ میں چودھری اعتزاز احسن جیسی کئی آوازیں ہیں جو ن لیگ کو ناقابل اعتبار سمجھتی ہیں کہ یہ پیپلز پارٹی کو آگے کرکے پیچھے سے ڈیل کرلیتی ہیں جبکہ ن لیگ میں خواجہ آصف جیسے ذہن بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری ناقابل یقین ہیں ان پر 2008 اور اس سے پہلے ن لیگ نے جو سرمایہ کاری کی اس کا صلہ نہیں ملا جبکہ مولانا فضل الرحمان تو اے پی سی کی بیٹھک میں بیٹھے ہی اس لئے تھے کہ وہ اپنے حصہ کا حلوہ کھانے کے خواہش مند تھے۔
مفاداتی سیاست اور احتجاجی تحریک کے اس کھیل میں اگر کسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی تو وہ مولانا فضل الرحمان ہی ہوں گے ۔آصف علی زرداری اگر مفاہمت کے بادشاہ ہیں تو مولانا فضل الرحمان جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پر نوازشریف بھی تکیہ کئے ہوئے ہیں اور خود آصف علی زرداری بھی اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں وہ واحد شخصیت ہیں جو اس وقت سب کوقابل قبول ہیں اور وہی یہ اتحاد جوڑ کر رکھ سکتے ہیں اس میں وہ کتنا کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہی ہوگا اور یہ بھی ممکنات میں شامل ہے کہ تحریک کے آخر میں صرف وہ ہی بچ جائیں اور باقی بڑی جماعتیں ان کی کشتی سے ایک ایک کرکےکود جائیں ۔
مولانا فضل الرحمان کا بلوچستان کی پشتون پٹی میں خاصا اثر و رسوخ ہے ان کا ووٹ بینک ہے جو جلسوں میں جمع ہو کر ان کی کامیابی کا ضامن بنے گا ۔ اس کے علاوہ ان کے آبائی حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں،لکی مروت اور اس سے جڑے دیگر اضلاع میں بھی جے یو آئی ایف مضبوط ہے۔پنجاب کی بات کریں تو جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع میں ان کے حمایتی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔اس لئے جب وہ ان علاقوں میں جلسے کریں گے تو مدارس کے طلبا تو ہوں گے ہی ان کے ووٹرز بھی باہر نکلیں گے اور یہ وہ افراد ہیں جو مولانا پر مر مٹنے کو تیارہیں۔اس کی وجہ مذہب ہے اوریہی مذہبی عنصر مولانا کی اصل طاقت ہے جس کو وہ استعمال کرتےرہے ہیں۔مولانا کے اس طریقہ سیاست پر اعلیٰ سطح پر مدارس کو قومی تحویل میں لینے کی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں تاکہ تعلیم خواہ وہ یونیورسٹی اور کالج کی ہو یا مدارس کی اس کو سیاست سے دور رکھا جاسکے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو دیکھیں تو اس کے پاس ایسی مذہبی اسٹریٹ پاور نہیں جو سٹرکوں پر آ سکے اور جلسوں کو گرم رکھ سکے۔ دوسری جانب مولانا کے پاس خاکی پوش جانثاران کی ایک فورس بھی ہے جوبظاہر ڈنڈوں سے لیس ہے لیکن بعید نہیں کہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہو۔اس لئے اگر یہ تحریک شروع ہوتی ہے تو گرفتاریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی تو پیچھے ہٹ سکتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمان اس بار شائد پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ انا کی جو چنگاری انہوں نے گزشتہ 2 سال سے اپنے سینے میں سلگا رکھی ہے اس باروہ اس سے کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں یہ چنگاری ان کی سیاست کو بھسم کر دے گی ۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
ہفتہ،3اکتوبر2020