پاکستان نام کا توزرعی ملک ہے لیکن اس ملک میں وافر گندم ہو نے کے باوجود گندم درآمد کرنا پڑتی ہے کوئی اس پر تجارت کرتا ہےاور کوئی سیاست لیکن پھر بھی عوام کو سستی گندم ملتی ہے نہ سستا آٹا۔بقول شاعر
تیرے رزق پہ ہے پتھر کے خداؤں کا تسلط
کس سے کریں فریاد کہ آٹا نہیں ملتا
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت گزشتہ دنوں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) کا ایک اجلاس ہوا جس میں 279ڈالرزفی ٹن کی قیمت پر روس سے ایک لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی گئی۔گندم درآمد کرنے کا یہ معاہدہ دونوں ملکوں میں حکومت کی سطح پر ہو گا۔منسٹری آف نیشنل سیکورٹی اینڈ ریسرچ نے جولائی میں روس، ایران اور یوکرائن سے کم از کم 2 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی فراہمی کے لیے رابطہ کیا تو صرف روس نے ستمبر کے آخر میں گندم فراہمی پر آمادگی کا اظہار کیا تھا جبکہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان ایک ہفتہ پہلے ہی 274 ڈالرزفی ٹن کا ٹینڈر مسترد کردیا تھا ۔ عالمی منڈی سے مہنگے داموں گندم کی خریداری پر کمیٹی ارکان نے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ نے ای سی سی سے منظوری لینے میں جلدی کی۔کیونکہ روس کی طرف سے پروپوزل کی منظوری کے لیے2 اکتوبر تک کا وقت دیا گیا تھا۔منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ نے پروپوزل کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعداسے منظور کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ گندم پاکستان کو 46,116روپے فی ٹن کی قیمت پر ملے گی۔منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکورٹی کی طرف سے ای سی سی کو بتایاگیا کہ روس وسط اکتوبر سے نومبر کے آخرتک ایک لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن گندم فراہم کرے گا۔ پاکستان اور روس کی دو تجارتی کمپنیوں کے مابین ایم او یو پر دستخط ہونے کے بعد وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان اس سے پہلے ہی 3 لاکھ 30 ہزار ٹن گندم کی درآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ جاری کر چکی ہے۔جو 233.8 ڈالرزفی ٹن کے حساب سے خریدی جائے گی جبکہ 1.1 ملین ٹن کے ٹینڈر پر ابھی کارروائی جاری ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ طے کیا گیا کہ اس گندم کی ترسیل کا کام روسی بحری جہازوں کے ذریعے ہو گا۔پاکستان کی وزارت بحری امور کے وزیر سید علی زیدی نے اس فیصلہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ترسیل کی یہ ذمہ داری پاکستانی بحری جہازوں کو دی جانی چاہیے تھی کیونکہ وفاقی کابینہ اور ای سی سی یہ طے کر چکے تھے کہ ترسیل کی ذمہ داری پاکستانی جہازوں کو دی جائے گی تاکہ غیر ملکی زر مبادلہ کی بچت ہو سکے۔
گندم کی بڑھتی ہوئی قلت اور آٹا کی قیمت کی وجہ سے حکومت کو بیرون ملک سے گندم منگوانے کی ضرورت پڑ تی رہتی ہے۔ حکومت کواس سال 22 لاک ٹن گندم کی قلت کا سامنا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے تین مختلف سطحوں پر کام کیا جا رہا ہے۔یعنی حکومت سے حکومت، نج اداروں اورٹریڈنگ کارپوریشن کے ذریعے قلت پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں گندم کی درآمد پر60 فیصد ریگولٹری ڈیوٹی،11فیصد کسٹم ڈیوٹی،17فیصد سیلز ٹیکس اور 6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔درآمدی گندم پراینٹی ہورڈنگ ایکٹ بھی نافذ نہیں ہو گا۔یہ خدشہ بہرحال موجود ہے کہ عوامی فلاح کے لیے اٹھائے گئے اس قدم سے درآمد کے بعد گندم برآمد کرنے کا نیاسلسلہ نہ شروع ہو جائے۔ تمام متعلقہ اداروں کو اس معاملے پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
ملک میں آٹا اورگندم کےحالیہ بحران کی بڑی وجہ صوبوں اور پاسکو کا اپنے ٹارگٹ سے کم گندم کی خریداری تھی۔مارچ اور اپریل میں گندم کی نئی فصل آنے سے پہلے حکومتی ذخائر پچھلے 5 سالوں میں کم ترین سطح پر تھے۔تاہم نئی ٖفصل پر بھی صوبوں نے خریداری کے اہداف پورے نہیں کیے۔گندم اور آٹا کے اس بحران پر وزیر اعظم کی طرف سے جنوری میں بنائی گئی کمیٹی میں بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے اپنے ہدف 10 لاکھ کے بجائے زیرو ٹن خریداری کی۔پنجاب نے 40 لاکھ کے بجائے33 لاکھ ٹن کی خریداری کی جبکہ پاسکو نے 0.679 ٹن کی خریداری پر اکتفا کیا۔اس کا اصل 11 لاکھ ٹن تھا۔ کمیٹی نے یہ نتیجہ بھی نکالا کہ انتظامی سطح پر سیکرٹریز اور فوڈ کنٹرول افسران کے بار بار کے تبادلوں نے کسی کوصورتحال کا صحیح ادراک نہیں ہونے دیا۔ چونکہ حکومت کی سطح پر خریداری 20 دن کی تاخیر سے شروع ہوئی تو نجی مل مالکان نے حکومتی کمزوری کو بھانپتے ہوئے گندم ذخیرہ کرلی اور یوں قیمتوں پر کنٹرول حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا۔بعد میں حکومت کو ذخائر کے بارے میں غلط معلومات دے کر گمراہ کیا گیا۔یہ تاثر دیا گیا کہ ملک میں گندم ضرورت سے زائد ہے چنانچہ گندم باہر بھیج گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 40 کلو گرام گندم کے جس تھیلا کی قیمت دو سال پہلے14 سو روپے تھی اب تقریباً24 سو روپے ہو گئی ہےجبکہ گندم کی درآمد کےباوجود قیمت میں فرق نہیں آیا ۔آٹا کے20 کلو گرام تھیلا کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔840 روپے کا تھیلا اس وقت پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں 12 سو سے 14 سو روپے میں دستیاب ہے۔
اس سال حکومت کو ناقص پالیسیوں اور مافیا گٹھ جوڑ کی وجہ سے سوا 8 ارب روپے سے زائد اس مد میں اضافی خرچ کرنے پڑیں گے۔اس وقت سرکاری گوداموں میں 50 لاک ٹن گندم موجود ہے جب کہ نجی شعبہ 4 لاکھ 30 ہزار ٹن پہلے ہی درآمد کر چکا ہےاس سب کے باوجود چکی پر دیسی آٹا 75 روپے کلو میں دستیاب ہے جبکہ تنور پر خمیری روٹی اور نان کی قیمت15 روپے کلو ہوچکی ہے لیکن حکومت کو اس کی کیا پروا اس کے پاس مرغیوں کی فیڈ کے لئے سستی گندم فراہم کرنے کا جواز تھا لیکن انسانوں کے لئے سستی گندم نہیں تھی اور بعینہ یہی حال اس سال بھی لگتاہے کہ آٹا اور گندم کی اسمگلنگ روکی گئی نہ گندم کے اسٹاک کو چیک کرنے کا مانیٹرنگ سسٹم بنایا گیا جس کا نتیجہ یہی نظر آ رہا ہےکہ آنے والے مہینوں میں گندم کا بحران ایک بار پھر سر اٹھائے گا جبکہ سونا اگلتی زمین کی پیدوار ذخیرہ اندوز کرنے والے کی یونہی چاندی ہوتی رہے گی ۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
اتوار،4 اکتوبر2020