بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کاسرطان دنیا میں کینسر اموات کا دوسرا بڑا سبب مانا جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ اوکی رپورٹ کے مطابق 2018 میں ایک کروڑ اکیاسی لاکھ نئے کینسر کیس رپورٹ ہوئے اور96 لاکھ افراد اس سے موت کا شکار ہوئے۔ کینسر کی مختلف اقسام میں بریسٹ کینسرایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایک کروڑ اکیاسی لاکھ کیسز میں سے 62 لاکھ 7 ہزار خواتین اس بیماری کی وجہ سے انتہائی تکلیف دہ موت کا شکار ہوئیں۔دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ بریسٹ کینسر کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ بریسٹ کینسردنیا کے ہر علاقے، طبقے اور عمر کی خواتین میں بڑھ رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے2018 کے اعداد و شمار کے ہی مطابق پاکستان میں نئے رپورٹ ہونے والے خواتین کے کینسرکیسز میں 34,066 (36.8%) بریسٹ کینسرکے ہیں جو کسی بھی دوسرے کینسر سے بہت زیادہ ہیں۔ اس سال اس بیماری سے مرنے والی خواتین کی تعداد 17,158 تھی۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اموات کی یہ شرح 23.2% ہے۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر کی تشخیص و علاج پر پچھلے 10 سال سے کام ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً30 کینسر اسپتال کام کر رہے ہیں۔جن میں سے سندھ میں11،پنجاب اورخیبر پختونخوا میں7،7 اسلام آباد میں3 جبکہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ایک ایک ہیں۔ قومی سطح پر چونکہ کینسر ڈیٹا رجسٹری کا منظم نطام نہیں ہے اس لیے معلومات کی فراہمی میں مشکل پیش آتی ہے۔ تاہم تمام موجود ڈیٹا پاکستان میں کینسر اور خواتین میں خاص طور پر بریسٹ کینسر کے بڑھنے کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔2019 کی ایک ریسرچ کے مطابق سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزاربریسٹ کینسر کے کیس رپورٹ ہوئےجن میں سے 50 سے 60 فیصد مریض موت کے منہ میں چلےگئے۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر کے زیادہ تر کیسز درجہ 3-4 پر رپورٹ کیے جاتے ہیں جب علاج اور بچنے کے امکانات محدود ہو چکے ہوتے ہیں۔تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کم عمر کی نسبت(15-29)بڑھتی عمر (55-59) کی خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان کادنیا میں بریسٹ کینسر کی رینکنگ میں 58 واں نمبر ہے جو بہت خطرناک ہے۔ علاج معالجہ کی سہولیات بہتر کرنے کے علاوہ خواتین میں آگاہی،روک تھام، ذاتی معائنہ جیسی معلومات کا پھیلانا انتہائی ضروری ہے۔
معروف اداکارہ نادیہ جمیل پر بریسٹ کینسر کے دوران کیا بیتی اور انہوں نے کس بہادری سے اس کا مقابلہ کیا انہوں نے اپنے تجربات وائس آف امریکا کے ساتھ شیئر کئے۔
اس وقت پاکستان میں نیشنل کینسر کنٹرول پروگرام(NCCP)،پاکستان ہیلتھ ریسرچ
کمیٹی(PHRC)،پنجاب کینسر رجسٹری (PCR)اور کراچی کینسر رجسٹری (KCR)بریسٹ کینسر پر معلومات کا بڑا ذریعہ ہیں۔
یوں تو کینسر کی وجوہات میں لائف سٹائل،کھانے پینے کی عادات، وزن کا بڑھنا،نشہ کا استعمال، جسمانی مشقت کی کمی ،تمباکو نوشی، برقی شعاعیں، فضائی آلودگی وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہےلیکن بریسٹ کینسر میں موٹاپا،صفائی،دودھ پلاتے ہوئے احتیاطی تدابیر کا خیال نہ رکھنا اورمعلومات کی کمی ہے۔ ہمارے دیہات میں روایتی شرم و حیا،معلومات کا نہ ہونا، اپنی نگہداشت نہ کر پانا اور معمولی تکلیف کے لیے ڈاکٹر تک نہ جانا مرض کے بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔حکومت اور سول سوسائٹی کو عوامی آگاہی کے لیے زیادہ سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر بڑھتی ہوئی بیماری ملک کی معاشی صورت حال پر بوجھ بن جاتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی گائیڈ لائنز کے مطابق ابتدائی روک تھام اور مرض سے متعلق آگاہی پر زور دینا چاہئے۔دیہی علاقوں میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے اس کام کو مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ماہرین صحت کے مطابق چھاتی کا سرطان واحد ایسا سرطان ہے جس کی جلد تشخیص کی جا سکتی ہے کیونکہ اس کی علامات جسم پرظاہر ہوتی ہیں جو کینسر کی دیگر اقسام میں نہیں ہوتی ہیں۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی پیدا کرنےکے لیے یکم اکتوبر سے پنک ربن مہم کا آغاز کیا گیا یہ مہم 7اکتوبر تک جاری رہی گی۔ اس سلسلے میں جہاں عوام کو اس مرض کے بارے میں بتایا جا رہا ہے وہیں پر قائداعظم کا مزار، مینار پاکستان، دفتر خارجہ ، شاہ فیصل مسجد اور ایوان صدر کو گلابی رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔
پنک ربن مہم کے حوالےسے ایوان صدر میں گزشتہ دنوں ایک تقریب بھی ہوئی اور اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ صدرمملکت ڈاکٹر عار ف علوی کی اہلیہ ثمینہ علوی،جو خود بھی ڈاکٹر ہیں نےبھی شرکاء سے خطاب کیا جبکہ ان کے شوہر شرکا میں شامل تھےاور ان کی باتوں کو توجہ سے سنتے رہے۔بجائے کے روایتی شرم کی وجہ سے ہم اپنوں میں اس بیماری پر بات نہ کریں جس کا نتیجہ موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔
پاکستانی سوسائٹی پنک ربن کال فار ایکشن کے سی ای او کےمطابق بریسٹ کینسر کے کامیاب علاض کے لیے ابتدائی مراحل میں تشخیص کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں تشخیص اور علاج کی سہولیات بہت مہنگی ہیں۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بریسٹ کینسر کے علاج کو صحت کارڈ میں شامل کیا جائےاورمارکیٹ میں اس کی ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے۔اس کے علاوہ تشخیصی آلات بالخصوص میموگرام اورالٹراساؤنڈ مشینوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کی جائے۔ کینسر پیداکرنے والے غذائی اجزا کے استعمال پر پابندی لگانے کی ضرورت ہےاس کے ساتھ ساتھ نیشنل کینسر رجسٹری اور نیشنل کینسر پریونشن پروگرام کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم پنک ربن کمپین کے اصل مقصد کو حاصل کرسکیں ۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
اتوار،4اکتوبر2020