سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے خلاف صوبائی دارالحکومت لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں ’غداری‘ اور ’ریاست کے خلاف بغاوت پر اُکسانے‘ کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ بدر رشید نامی ایک شہری کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔ نواز شریف کے خلاف درج ہونے والی ایف ائی آر میں غداری، ریاست کے خلاف بغاوت پر اُکسانے اور سائبر کرائم ایکٹ پیکا کی دفعات سمیت مجموعی طور پر 12 مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔
دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے بدر رشید کو مخالف پارٹی کا کارکن ثابت کیا جا رہا ہے اور انہیں کوئی بھی اپنا کارکن تسلیم کرنے پر تیار نہیں جس کی وجہ سے صورت حال کافی دلچسپ ہو گئی ہے، تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغاوت کا مقدمہ دائر کرنے والے بدر رشید کون ہیں؟
سابق وزیراعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرانے والے شہری بدر رشید کی سیاسی وابستگی کے حوالے سے اس وقت سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرئیاں کی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر بغاوت کے مقدمے کے مدعی کی گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے ساتھ تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس بنیاد پر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بدر رشید کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔جی ہاں، یہ وہی بدر رشید خان ہیں جنہوں نے مسلم لیگی قیادت پر بغاوت کا مقدمہ درج کروایا اور ایف آئی آر میں خود کو ایک محب وطن شہری بھی قرار دیا تھا۔ بدر رشید نہ صرف خود ایک سیاسی کردار اور پاکستان تحریک انصاف کا تنظیمی عہدیدار ہے بلکہ یہ کئی مقدمات میں بطور ملزم بھی نامزد ہے جن میں اقدامِ قتل تک کا مقدمہ شامل ہے۔ تاہم یہ بات اب تک چھپائی جا رہی ہے کہ کسی وقت بدر رشید کا تعلق مسلم لیگ ن سے بھی تھا۔
گوکہ اس وقت بدر رشید کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے جوڑا جا رہا ہے تاہم یہ بات درست ہے کہ وزیر اعظم کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ملک میں درج ہونے والی ہر ایف آئی آر پر نظر رکھے یا یہ فیصلے کرے کہ کون سا مقدمہ درج ہو گا اور کون سا نہیں۔ اگر کوئی شہری ایسا مقدمہ درج کراتا ہے تو وہ اپنی ایما پر کراتا ہے نہ ریاست اس میں ملوث ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ایف آئی آر کا فائدہ کس کو ہوا ہے؟
یہاں یہ بات تو واضح ہے کہ اگر یہی ایف آئی آر کوئی عام آدمی درج کراتا تو اس کا فائدہ ہر گز ہرگز مسلم لیگ ن کو نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس طرح کی ایف آئی آر کی کوئی حیثیت نہیں مانی جاتی جس کی وجہ یہ ہے کہ غدار کا مقدمہ ہمیشہ ریاست کی طرف دائر کیا جاتا ہے اس لیے اس ایف آئی آر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ تاہم اس ایف آئی آر سے سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف کو ہوا ہے۔ اب چونکہ اس ایف آئی آر کے مدعی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے جوڑا جا رہا ہے اور اس ضمن میں بہت ساری تصاویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں بدر رشید کو پاکستان تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤن کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے تو اس ایف آئی آر کا سارا فائدہ نواز شریف کو ہوا ہے۔
نواز شریف اسطرح کے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرنے میں ماہر ہیں اور اس کا سیاسی فائدہ بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن کی جانب سے اس ایف آئی آر سے نواز شریف یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا عمل تیزی سے جار ی ہے ۔ اس مقدمے سے ان کو ںہ صرف اس وقت سوشل میڈیا پر ہمدردیاں حاصل ہورہی ہیں بلکہ مین سٹریم میڈیا بھی ان کے حق میں بڑھ چڑھ کر بول رہا ہے۔ جب کہ اس عمل سے نواز شریف کے نام نہاد بیانیے کو بھی زبردست تقویت ملے گی۔ مسلم لیگ ن کے ایسے ورکر جو نواز شریف کے فوج کے خلاف بیانیے کو غلط قرار دیتے ہیں وہ بھی اس مقدمے کے بعد اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور حکومت کے لیے نواز شریف کے خلاف کارروائی انتہائی مشکل ہوجائے گی۔
اس مقدمے ایک اور بڑا فائدہ میاں صاحب کو یہ ہوگا کہ وہ ایک غیر معینہ مدت تک پاکستان کی راہ نہیں لیں گے اور اس مقدمے کو بنیاد بنا کر یہ بات کہیں گے کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہے جب کہ اب حکومت پاکستان کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہوگاکہ وہ حکومت برطانیہ سے ان کی واپسی کے لیے درخواست دائر کرے کیونکہ اس ایف آئی آر سے وہ بین الاقوامی دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں جبکہ کرپشن کے حوالے اسے برطانیہ اس بات کا پابند ہوتا کہ وہ قومی دولت لوٹنے کے مجرم کو پاکستان کو واپس کرے تاہم اب نواز شریف الطاف حسین والا سٹیسٹس حاصل کرکے برطانیہ میں آرام سے پناہ حاصل کر سکتے ہیں اور جب تک پاکستان میں حالات سازگار نہیں ہوتے وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ نواز شریف کی اس سیاسی چال سے لگتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر عوام اور حکومت سے ہاتھ کر گئے ہیں۔