ماڈل ٹاؤن لاہور میں گزشتہ روز مسلم لیگ ن کا مشاورتی اجلا س ہوا جس میں خواجہ آصف نے سینیٹ الیکشن کو بھی اقتدار کی بھوک کی نذر کرنے میں کوئی چوک نہیں کی۔ قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے واضح کیا کہ طاقت کے حصول کی اگلی دوڑ یعنی ایوان بالا کے انتخابات میں جب پی ڈی ایم کی تحریک اپنی تیزی پر ہو گی تو حالات کی ضرورت کے مطابق ن لیگ کے 84 ارکان قومی اسمبلی استعفے دے دیں گے تاکہ الیکٹوریل کالج ہی برقرار نہ رہےاور سینیٹ الیکشن نہ ہو سکے۔موجودہ صورتحال میں نواز شریف کے بیانیہ سے اختلاف کی اندرون خانہ کہانیوں سے یہ خیال تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے اکثریت حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ گویا 2018 کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پوری تحریک چلانے والے اتنے اعلیٰ سطح کے انتخابات میں پری الیکشن رگینگ کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
نواز شریف نے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی خواہش فوج مخالف بیانیہ کے لانچ کرنے کے بعد کی تھی۔جس پر انھیں بتا یا گیا تھا کہ پارٹی میں اندرونی طور پر بہت سےا رکان اس بیانیہ کے ساتھ نہیں ہیں اور اس مرحلے پر استعفوں کا تقاضا پارٹی میں توڑ پھوڑ کا سبب بنے گا۔اسی دورا ن پنجاب اسمبلی کے5 ارکان کوپارٹی بیانیہ سے اختلاف پر نکال دیا گیا اور گزشتہ روز اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ان سے جو سلوک روا رکھا گیا وہ پارٹی کی سیاسی سوچ اور بلوغت کو ظاہر کرتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کی ان دھمکیوں کی پی ڈی ایم کی دوسری سیاسی جماعتیں پی پی پی اورجے یو آئی حمایت کرتی ہیں؟ پیپلز پارٹی کی خاموشی اور اپنے بیانیہ کو حکومتی نااہلی تک محدود رکھنااندرون خانہ سیاسی مفاہمت کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنا پی پی پی کے لیے بہت بڑا سیاسی جواء ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے اپنی کشتیاں جس کرپشن کو چھپانے کے لیے جلائی ہیں اور اداروں پر حملے کے جس بیانیہ کو لے کر آگے بڑھی ہیں وہ سیاسی نظام میں کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
سینیٹ الیکشن کی پری پول رگینگ کی پلاننگ کرنا دراصل ملک کے جمہوری نظام میں تعطل ڈالنے کی کوشش ہے۔ قانون سازی کے عمل میں تاخیری حربے عوامی مفاد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے 5 نکالے جانے والےارکان کا تعلق سنٹرل پنجاب کے اضلاع گوجرانوالہ اور باقی کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔یہ صورتحال مسلم لیگ ن کے لیے اور بھی سنجیدہ ہو جاتی ہے جب مارچ2021 میں ریٹائرڈ ہونے والے52 سینٹرز میں مسلم لیگ کے چھ سنیٹرزشامل ہوں گے۔خفیہ رائے شماری کی وجہ سے ایم پی ایز کے لیے پارٹی موقف سے ہٹ کر ووٹ دینا قابل گرفت نہیں۔اس کا مظاہرہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بھی ہوا اور حال ہی میں فیٹف کے بل کی منظوری کے وقت بھی دیکھنے میں آیاتاہم یہ بھی خبریں ہیں کہ ایوان بالا کے انتخاب میں خفیہ ووٹنگ کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے گا لیکن اس کے لئے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
پنجاب میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی حکومت کے لیے ایم پی ایز سے دوبارہ ووٹ لینا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔جنھیں اپنے حلقوں کے ترقیاتی کاموں کے لیے حکومتی فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ ان کا ووٹ بینک محفوظ رہے۔ دوسری جانب سینیٹ الیکشن میں قومی اسمبلی کے ارکان فیڈرل کیپٹل کی چار سیٹوں کے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں جبکہ باقی نشستوں میں صوبائی اسمبلیوں کا کرداراہم ہے۔ایم پی ایز، ایم این ایزکے استعفوں پر الیکشن کمیشن 60دنوں میں اورصوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دنوں میں الیکشن کروانے کا پابند ہے۔ سندھ اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں وہاں الیکشن روک کر باقی مراحل طے ہو سکتے ہیں۔ قانون میں اس کا حل ہے کیونکہ سینیٹ کو کسی صورت تحلیل نہیں کیا جا سکتا ۔استعفوں کے ایسے کسی قدم کو حکومت اپنے لیے نیک فال خیال کر کے فوراًالیکشن کا عندیہ دے چکی ہے۔ یعنی ضمنی انتخابات جوعام طور پرحکومت کے حق میں ہوتے ہیں،پی ٹی آئی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے آئیڈئل نظر آرہے ہیں۔دو تہائی اکثریت کا مطلب ہے انتہائی طاقتور حکومت جسے قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور عمران خان کو صدارتی نظام کے لئے تگ ودو بھی نہیں کرنا پڑے گی۔پی ٹی آئی حکومت کے اس خواب کو پورا نہ ہونے دینا دوسری سیاسی جماعتوں کا ایجنڈہ بن جائے گا۔ خاص طور پر وہ مذہبی جماعتیں جوعمران خان کو اپنے ووٹ بینک میں یہودی ایجنٹ کہہ کر بیچتی ہیں اور وہ سیکولر جماعتیں جو موجودہ حکومت کو عوام دشمن سمجھتی ہیں،بھلا کس طرح میدان خالی چھوڑ سکتی ہیں؟
ذاتی مفادات کی اس دوڑ میں حکومتی اداروں کے استحکام کو چیلنج کرنااور اس طرح کی منصوبہ بندی کرنا سیاست نہیں بلکہ سازش سمجھی جا سکتی ہے۔جو دباؤ بڑھانے کے لیے تو استعمال کی جا سکتی ہے لیکن کوئی مثبت نتائج حاصل نہیں کر سکتی۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
ہفتہ،10 اکتوبر2020