عرصہ دراز کے بعد سریلی گھنٹیوں کے مدھرشور پیچھے چھپے بھگوان کے پجاریوں کا اصل روپ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔یو ایس فارن پالیسی میگزین نے اپنی حالیہ اشاعت میں چھپی ایک رپورٹ کے ذریعے دنیا کی توجہ مختلف ممالک میں ہونے والی ان دہشت گردی کے واقعات کی طرف دلائی ہے جن کی پشت پناہی دنیا کی بڑی سیکولر ریاست بھارت کرتا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی کاونٹر ٹیرئرزم کمیٹی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں انڈیا میں داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کا پتہ دیا تھااور خدشہ ظاہر کیا تھاکہ خطے میں ہونے والی دہشت گردی کو یہاں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں یہ علاقہ ایسی کارروائیوں کا بڑا مرکز بننے جا رہا ہے۔
امریکی جریدہ کے مطابق بھارت اوروسطی ایشیاء میں داعش کی تحریکی تنظیم میں کئی نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔ داعش نےبھارت او سنٹرل ایشیا ءکے علاقوں میں پنجے گاڑھ کر عالمی جہادی تحریک کو نئی شکل دے دی ہے۔اب ازبکستان،کرغزستان،تاجکستان اور انڈیا کے لوگ اس تحریک کا نمایاں حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت جلال آباد جیل میں جہادیوں کی رہائی کے لیے داعش کا حملہ تھا جس میں ازبک،انڈین، تاجک اورافغان عسکریت پسند شامل تھے۔مختلف قومیتوں کا داعش کے جھنڈے تلے جمع ہو جانا دنیا کے لیے زیادہ تباہ کن نتائج کا حامل ہو گا۔ 2017 میں نئے سال کی رات ترکی نائٹ کلب پر حملہ،2017 میں ہی نیو یارک سٹی اور اسٹا ک ہو م میں ٹرک حملہ،2019میں ایسٹر پر سری لنکا کا بم حملہ اسی گروپ کی پلاننگ تھی۔ ان وسطی ایشاء کی ریاستوں کا دہشت گردی کی پلاننگ کرنا اور اس پر عمل کرنا دنیا کے لیے خطرے کی نئی گھنٹی ہے۔شمالی وزیرستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں جہادی عنصر کئی دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔جو افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کرتا رہا ہے لیکن اتنا منظم نہیں تھا لیکن اب بھارت کی آشیر باد سے آہستہ آہستہ ان کا دائرہ کار دوسرے ملکوں تک پھیل رہا ہے۔
پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے تانے بانے انڈیا سے ملتے ہیں۔جون 2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ میں گر چہ دہشت گردوں کو ناکامی ہوئی اور بی ایل اے نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی تاہم پاکستانی حکام کے مطابق ان کا تعلق بھارتی سر زمین سے تھا۔ حال ہی میں کراچی میں مولانا عادل پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ جو پاکستان کے خلاف اور بہت سی سازشوں کے ساتھ ساتھ ملک میں فرقہ وارایت کو ہوا دینا چاہ رہا ہےتاکہ بدامنی اور انتشار پھیلے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان چودھری حفیظ نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں پاکستان کی ان کوششوں کا ذکر کیا جو وہ انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کے حقائق کے حوالے سے دنیا کے سامنے لاتا رہا ہےا ور امریکی جریدہ کی حالیہ رپورٹ کو دنیا کے سامنے سیکولر بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنے کی ایک سعی قرار دیا۔ خود بھارت میں دہلی کے منظم مسلم کش فسادات میں شر پسند ہندو گروپس کو ریاستی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ریاستی ادارے شر پسند وں کی معاونت کرتے رہے ہیں۔ بابری مسجد کی مسماری، دہلی کے فسادات،قومیت کے نئے قوانین،وکیل بابر قادری کا قتل،جموں و کشمیر میں ہر روز کی ریاستی دہشت گردی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جموں و کشمیر میں ہونے والی نسل کشی پر عالمی برادری کو سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے ورنہ بھارت کی یہ ہندوتوا پالیسی خطہ کے امن کے لیےبڑا خطرہ بن جائے گی۔
یورپین پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی ذیلی کمیٹی نے حال ہی میں انڈین حکومت کی ہندو نوازپالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انھیں اقلیتوں کے لیے انتہائی امتیازی اورسخت نقصان دہ قرار دیا ہے۔کمیٹی کے مطابق ا نسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان،صحافیوں اور ناقدین کو مختلف قوانین کے تحت ہراساں کرناتشویش ناک ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیامیں پہلے ہی اپنے دفاتر بند کر چکی ہے۔
نریندر مودی کی قیادت میں سیکولر بھارت کا یہ نیا بگڑتا چہرہ دنیا کے لیے دن بدن خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ روایتی دشمن ہمسایہ کی موجودگی میں پاکستان کو پہلے سے زیادہ ہوشیار اور چوکس رہنے کی ضرورت ہےکیونکہ اب اس کا ہدف صرف ہماری زمین ہی نہیں بلکہ ہماری خوشحالی،استحکام اور بقا بھی ہے۔سی پیک کے آغاز ہی سے دشمن کی چالیں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں۔دہشت گردی، فرقہ وارانہ انتشار،سیاسی بحران، عوامی بے چینی،اداروں پر الزام تراشی سب سے نمٹنے کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کو مسلسل الرٹ رہنے ہو گا۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
پیر،12 اکتوبر2020