پاکستان کی 22 کروڑ سے زائد لوگ ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی بناء پر بنیادی ضروریات کے فقدان اورشہری سہولیات سے محرومیت کا جرم بھگت رہے ہیں، نہ پینے کا صاف پانی، نہ گھریلو استعمال کی گیس ، بجلی جتنی آتی نہیں جتنی جاتی ہے، سڑکوں، سیوریج نظام، صحت و صفائی کی حالت زار سمیت ہر وہ ضرورت جو زندگی گزارنے کیلئے لازم ہے اس کی کمی ہے ان سب کے ساتھ شہروں میں رہنے والے افراد کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ ایک ڈراؤنے کواب سے کم نہیں ، چھوٹے شہروں کی تو بات ہی کیا بڑے شہروں میں تو پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر شہریوں سے مسلسل ایک مذاق ہی ہورہا ہے، میٹرو سروس، گرین، یلو، ریڈ، اورنج سارے ہی رنگوں کے نام سے پبلک سروسز پراجیکٹس کا آغاز تو کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک ہی مکمل ہوسکے ہیں ، بقیہ اپنی بے بسی کا رونا روتے اور عوام کچھوے کی رفتار سے چلتے تعمیراتی منصوبوں کو دیکھ دیکھ کر اپنا خون جلا تے نظر آتے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیوں کا بھاری منافع
اس صورتحال اور مارکیٹ کی طلب کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں گذشتہ کچھ برسوں کے دوران اوبر، کریم سمیت کچھ بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنی سروسز کا آغاز کیا اور اپنے معیار اور سہولتوں کی بنا پر بہت جلد عوام میں مقبول ہوکر بے پناہ منافع کمارہی ہیں، کروڑوں کا سرمایہ لگا کر اربوں روپے کی کمائی کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا اور ہونا باقی ہے عوامی طلب بہت زیادہ جبکہ رسد نہ ہونے کے برابر ہے، کریم اور اوبر جتنی اچھی ہوں بہرحال ایک ملازمت پیشہ مرد یا خاتون کیلئے آفس جانے کیلئے اس کا روزانہ استعمال جیب پر بہت بھاری پڑتا ہے، نتیجے میں بچی کچھی خستہ حال بسوں، منی بسوں، اور کوچز میں ٹھونس ٹھنسا کر 40 کی جگہ ڈیڑھ سو مسافروں سے میں اپنی جگہ بنا کر عام آدمی تکلیف دہ سفر کرنے پر مجبور ہے۔یہ وہ صورتحال ہے جو پاکستان میں نجی پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیوں کیلئے بھاری منافع کمانے کی پرکشش راہ ہموار کررہی ہے۔
ایک انوکھی اور سستی ترین سروس
اس تناظر میں طلب و رسد اور عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نجی کمپنی نے پاکستان میں ایک عام آدمی کیلئے ایک ایسی سروس متعارف کرادی ہے جس کا خیال شاید چند سال بعد کسی کو آنا تھا لیکن کمپنی نے خطرہ مول لیتے ہوئے ایک بڑے کام کا آغاز کردیا ہے، ایزبائیک یا ایزی بائیک سروس کے نام سے اپنے منصوبے کا آغاز کرنے والی کمپنی "رومر” نے کچھ ذاتی اور کچھ بیرونی سرمایہ کاری سے اس سروس کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے کردیا ہے ، اس سلسلے میں باقاعدہ افتتاحی تقریب منعقد کی گئی جس میں الیکٹرک بائیک سے متعلق بریفنگ دی گئی، تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکشن سید امین الحق نے اس منصوبے کو پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ شعبے کا گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی 100 فیصد سہولیات کی فراہمی کسی بھی حکومت کیلئے ممکن نہیں ہوسکتی، اس کیلئے نجی شعبے کو لازمی آگے آنا ہوتا ہے "رومر” نے اس شعبے میں ایک انوکھی سروس متعارف کروا کے دیگر کمپنیوں کو راہ دکھا دی ہے، وفاقی وزیر نے یقین ظاہر کیا کہ صرف چند ماہ میں یہ کمپنی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ بے پناہ منافع بھی کما سکتی ہے، انھوں نے کہا کہ حکومت نجی شعبے خاص کر بیرورنی سرمایہ کاروں کو اس جیسے عوامی مفاد کے مزید منصوبے شروع کرنے کیلئے ہرممکن سہولت و تعاون فراہم کرنے کو تیار ہے۔
ایزی بائیک سروس کے بانی سید محمد ہادی کون ہیں۔۔؟
اپنی طرز کی اس انوکھی سروس کو شروع کرنے والی کمپنی ” رومر” کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید محمد ہادی سے شفقنا اردو نے خصوصی گفتگو کی ہے ایزی بائیک کی تفصیلات سے قبل ہم آپ کو ان سے ملواتے ہیں، پھر ان کی ہی زبانی ان کی بائیکس اور اس متعلق تفصیلات آپ تک پہنچائیں گے۔
پرکشش اور دلآویز شخصیت کے مالک نوجوان سید محمد ہادی انتہائی تعلیافتہ اور دنیا کے کئی ممالک میں کام کرنے کا 16 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں، وہ ایک معروف انویسٹمنٹ بینک سے وابستگی کے دوران نیویارک، شکاگو، لندن اور دبئی میں خدمات انجام دے چکے ہیں ہادی کولمبیا بزنس اسکول نیویارک سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ڈگری کے حامل ہیں جبکہ انھوں نے اکناامکس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلر ڈگری منی سوٹا یونیورسٹی سے حاصل کی، بعد میں انھوں نے اپنے ایک دوست علی معین کے ساتھ مل کر ” رومر” کمپنی کی بنیاد ڈالی، علی خود بھی مینیجنگ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں اور امریکی خلائی ادارے ناسا، امریکن آرمی سمیت کئی اہم اداروں کیلئے سافٹ ویئرز بناچکے ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کمپنی ایک بہترین بینکر اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے ماہر اور دوسرے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے ماسٹر کا سنگم ہے۔
الیکٹرک بائیک کیا ہے۔۔؟
اس حوالے سے سید محمد ہادی بتاتے ہیں کہ ویسے تو الیکٹرک بائیک کی تاریخ 100 سال سے بھی زائد کی ہے 1890 میں پہلی الیکٹرک بائیک امریکہ میں رجسٹرڈ ہوئی جس میں ایک موٹر نصب تھی جسے سوار پیڈل کی مدد سے پاور فراہم کرتا تھا، اسے الیکٹرک بائیسکل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، لیکن صحیح معنوں میں الیکٹرک بائیکس کی تیاری کا آغاز 90 کی دہائی سے ہوا اور اس میں وقت کے ساتھ جدت آتی گئی آج دنیا کے بیشتر ممالک میں مخلتف طرز کی الیکٹرک بائیکس اور بائیسکل عام ہیں جسے کسی ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیئے یہ دھواں اور شور سے ماحول خراب نہیں کرتیں، ہادی کے مطابق ایزی بائیک ان کی ایک جدید شکل ہے جس میں ایک الیکٹرک موٹر نصب ہے جسے چارج کرنے کے بعد 50 سے 60 کلومیٹر تک چلایا جاسکتا ہے اس میں گیئر سسٹم نہیں بس تھراٹل گھمائیں اور چکاتے جائیں اس لحاظ سے یہ ٹین ایجرز اور خواتین کیلئے بہت آسان سوار ی ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان کے حریف پروسی ملک بھارت میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نام سے اسی قسم کی الیکٹرک بائیکس کئی سال سے کامیابی سے چل رہی ہیں۔ سید محمد ہادی کہتے ہیں کہ پاکستان میں کئی کمپنیاں الیکٹرک موٹر سائیکلیں بنارہی ہیں جن میں انجن نہیں ہوتا بلکہ یہ چارج ایبل موٹر سے چلتی ہیں ان کی قیمت عام موٹر سائیکل کے مساوی ہی ہے تاہم اس قسم کی بائیکس کو پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے تحت چلانے کا ہمارا منصوبہ منفرد اور اپنی طرز میں انوکھا ہے۔
ایزبائیک یا ایزی بائیک سروس کیسے کام کرے گی ۔۔؟
اس حوالے سے ہادی نے بتایا کہ ہمارے منصوبے کے تحت ایزی بائیکس کو شہروں میں عوامی پہنچ کے قریب تر مقامات پر قائم مراکز میں رکھا جائے گا، جہاں سے آپ اسے حاصل کرسکیں گے لیکن اس کیلئے پہلے آپ کو اپنے موبائل فون پر ایک ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرنا ہوگی جو آپ کو بائیکس کی قریب ترین لوکیشن بتائیں گی پھر آپ اسے اس مقام سے حاصل کرکے ایپلی کیشن کے کیو آر کوڈ کے ذریعے بائیک کو آن یا اسٹارٹ کرسکیں گے، ہادی کے مطابق بائیک کے چارجز ابتدائی طور پر 5 روپے فی منٹ رکھے گئے ہیں جو اس لحاظ سے انتہائی کم ہیں کہ اگر آپ کو 10 کلومیٹر کا سفر کرنا ہے جس کیلئے عام ٹیکسی کا کرایہ 300سے 350 روپے بنتا ہے جبکہ آپ اس بائیک کے ذریعے یہی مسافت 10 سے 15 منٹ میں طے کرتے ہوئے 50 سے 75 روپے میں اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے، اس کے بعد آپ بائیک کو جہاں چاہیں سڑک کنارے چھوڑ دیں، تاکہ وہ کسی اور سواری کے کام آسک بعد میں رات کو ایک مخصوص وقت میں کمپنی کے نمائندے اس بائیک کو وہاں سے اٹھا کر چارج کرکے مخصوص مقامات تک دوبارہ منتقل کردیں گے۔ ہادی نے بتایا کہ اگر آپ کسی مارکیٹ ، دکان یا کسی جگہ کچھ دیر رکنا چاہتے ہیں تو اایپلی کیشن سے اسے ” پاز” کردیں اس طرح ویٹنگ چارجز صرف 2 روپے منٹ کے حساب سے وصول کیئے جائیں گے مطلب یہ سواری کبھی آپ کی جیب پر بھاری نہیں ہوگی۔
ایزی بائیک کتنی محفوظ ہے۔۔؟
سید محمد ہادی نے بتایا کہ یہ ایزی بائیکس مکمل طور پر جی پی ایس ٹیکنالوجی کی حامل ہیں اور ان کی مسافت کی مکمل طور پر ٹریکنگ ہو گی اس لیئے شہر کی مخصوص حدود سے باہر جاتے ہی یہ بند ہوجائیں گی اور کسی صورت قابل استعمال نہیں رہیں گی تاہم جرائم پیشہ عناصر کی کارروائیوں کی بنا پر اس کی چوری یا کسی نقصان کی صورت میں یہ مکمل انشورڈ ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں رسک فیکٹر نہ ہونے کے برابر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایزی بائیک کی رفتار 35 کلومیٹر فی گھنٹہ تک محدود کی گئی ہے تاکہ تیز رفتاری کی بنا پر ہونے والے حادثات کا اندیشہ نہ رہے، ابتدائی طور پر ایزی بائیکس اسلام آباد میں میٹرو اسٹیشنز کے قریب پارک کی جائیں گی تاکہ میٹرو سے سفر کرنے والے مسافر خاص طور پر خواتین وہاں سے اسے حاصل کرکے اپنے گھر یا دفاتر تک جا اور آسکیں، بعد میں اس کا دائرہ کار پورے شہر میں پھیلایا جائے گا۔ ہادی کہتے ہیں کہ انشاء اللہ چند مہینوں میں ہی کراچی اور لاہور اور اس کے بعد دیگر شہروں تک اس کاا دائرہ کار بڑھایا جائے گا اس سلسلے میں ہمارا ابتدائی ہدف ایک لاکھ بائیکس کا ہے جس میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔ابھی یہ بائیکس سنگل سیٹر ہیں مستقبل میں 2 سواریوں والی بائیکس بھی شامل کی جائیں گی
سرمایہ کاری کہاں سے آئے گی۔۔؟
رومر کے بانی ہادی کے مطابق ابتدائی سرمایہ کاری ان کی کمپنی اور کچھ بیرونی سرمایہ کاروں سے حاصل کی گئی ہے ، ہم نہ صرف حکومت پاکستان کی جانب سے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کی امید رکھتے ہیں بلکہ متعدد غیر ملکی سرمایہ کار بھی ہمارے رابطے میں ہیں منصوبے کی ابتدائی کامیابی کے بعد امید ہے کہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری پاکستان میں آسکے گی۔ ایزی بائیک کی تیاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بائیک مکمل طور پر پاکستان میں تیار کی جائے گی البتہ انھوں نے اس کی اصل قیمت کے سوال کو بزنس سیکرٹ کہتے ہوئے ٹال دیا تاہم اندازہ یہی ہے کہ اس بائیک کی مارکیٹ ویلیو تقریبا 50 سے 60 ہزار روپے تک ہوسکتی ہے۔
اس ساری صورتحال سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ بہت جلد ایزی بائیک پاکستانی عوام کے دل میں اپنی جگہ بنا لے گی سستے اور سہل سفر کے ساتھ آسانی سے ہر جگہ اس سروس کی دستیابی یقینا اس کی کامیابی کو تیز تر کرسکتی ہے لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ کمپنی اس کی سروسنگ اور اپنے معیار کو برقرار رکھے اس بارے میں کمپنی کے مالک سید محمد ہادی بہت پرعزم نظر آتے ہیں۔