سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتے کے روز ٹائیگر فورس سے کنونش سینٹر میں ملاقات کروں گا، اس دوران ٹائیگر فورس اپنے علاقوں میں روزانہ آٹا، دال، چینی اور گھی کی قیمتیں چیک کرے۔ ٹائیگر فورس کے رضاکار اشیائے ضروریہ کی قیمتیں روزانہ ٹائیگر فورس پورٹل پر بھیجیں، ان اشیاء کی قیمتوں کے معاملے پر بات ہفتے کے روز ہونے والی ملاقات میں کریں گے۔
یاد رہے کہ کورونا وائرس نے سر اٹھایا تو بڑے پیمانے پر آگہی کیلئے حکومت کو افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو رضاکاروں پر مشتمل ٹائیگر فورس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ٹائیگرفورس کا کام درست معلومات اکٹھا کر کے ضلعی انتظامیہ کے ماتحت عوامی آ گہی پھیلانا تھا۔ کورونا کے خلاف عوامی آگہی اور حکومتی اقدامات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے بنائی گئی تھی تاہم ٹائیگر فورس کا کردار اس ضمن میں کہیں نظر نہیں آیا اور وہ نام کی ٹائیگر فورس بن کر رہ گئی جب کہ اپوزیشن کی جانب سے اس فورس کے قیام پر کئی سوالیہ نشان بھی اٹھائے گئے۔
اپریل میں اپنے قیام سے اب تک ٹائیگر فورس کا بطور رضاکار فورس کوئی کردار سامنے نہیں آیا اور ایسی صورتحال میںجب کرونا دوبارہ سر اٹھا رہا ہے وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ ٹائیگر فورس اشیائے خورو نوش کی قیمتیں چیک کرے گی اور ان کو ریگولیٹ کرنے کا کام کرے گی۔ ملک بھر میںمہنگائی کے حالیہ طوفان کے پیش نظر ہر شخص کی زبان پر ایک ہی لفظ ہے کہ حکومت نے مہنگائی سے لوگوںکو مار دیا ہے جب کہ دکانداروں کا دعوی ہے کہ انہیں چیزیں مہنگے داموں ملیں گی تو وہ مہنگے داموںہی فروخت کریں گے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو چیک کرنا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے اور اس سلسلے میںپرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنا یا قیمتوں کو ریگولیٹ کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یہ کام ریاستی اداروں کے آئینی دائرہ کار میںآتا ہے مگر بجائے آئینی اداروں کو فعال کرنے اور ان پر چیک رکھنے کے ایک ایسے ادارے کو یہ کام سونپنا جس کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی آئینی حیران کن بات ہے۔ قیمتوں پر قابو پانے کے لیے بہتر ہے کہ بلدیاتی حکومت کے نظام کو بحال کیا جائے۔ جب پہلے سے ہی نظام موجود ہے تو اسے بہتر بنانے کے بجائے ہم نئی طرز کی فورسز کیوں تشکیل دے رہے ہیں؟ایسے اقدامات سے حکومت اپنی ناکامیوں اور بد انتظامیوں کا اعتراف خود کر رہی ہے۔
مزید برآں ٹائیگر فورس ایک رضاکارانہ فورس ہے اور اس کا قیام سیاسی عمل ہے جس میں تمام تر افراد تحریک انصاف کے وفادار اور نمائندہ ہیں ۔ ایسی صورت میں کیا یہ فورس کسی بھی جگیہ کیا غیر جانبدارانہ کام سرانجام دے سکتی ہے؟ دنیا بھر میں رضاکارانہ تنظیمیں کام کرتی ہیں اور یہ کوئی نیا امر نہیں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں ایسی تنظیموں کو آئینی یا انتظامی اختیار دیے جاتے ہیں؟ ایسی تنظیموں کا کام کسی بھی قدرتی حادثے یا ایمرجنسی کی صورتحال میں حکومت کا ہاتھ بٹانا ہے نہ کہ انتظامی امور میں دخل اندازی کرنا۔
مزید برآں اگر ٹائیگر فورس نے انتظامی امور سنبھالنے ہیں تو پھر ان تمام انتظامی اداروں کو جو مہنگائی کنٹرول کرتے ہیں یا اشیائے خورونوش کی قیمتوںکو ریگولیٹ کرتےہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پرائس کنٹرول کمیٹیوںکو ختم کر کے حکومی خزانے اور عوام کی جیبوں پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیوںنہیںکرتی؟ پھر ان انتظامی اداروں پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ بہتر ہے کہ ان اداروں کو ختم کر کے یہ تمام تر اختیارات ٹائیگر فورس کو سونپ دے۔
اس ضمن میںچند سوالات اور بھی جنم لیتے ہیں کہ اگر ٹائیگر فورس کو یہ اختیارات سونپے جا رہے ہیںتو کیا ان کو کوئی باقاعدہ تربیت دی گئی ہے؟ کیا وہ باقاعدہ کسی ایسے ادارے کا حصہ رہے ہیں جو یہ کام کرتا رہا ہے؟ یاد رہے کہ ٹائیگر فورس کے ایک اہلکار اٹک کی ایک تحصیل میں بھتہ لینے کے الزام اور دکانداروں سے لڑنے جھگڑنے کے الزام میں ملوث پائے گئے تھے اسی طرح ٹیکسلا میں ٹائیگر فورس کا ایک رضا کار رشوت دیتے پکڑے گئے تھے۔ اگر یہ عمل کسی سرکاری ملازم نے کیا ہوتا تو اس کے خلاف سروس ایکٹ کے تحت کارروائی ہوتی تاہم ٹائیگر فورس پہ کون سا ایکٹ لاگو ہوگا؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ٹائیگر فورس کے اہلکار اس اختیار کو غلط طریقے سے استعمال نہیںکریں گے؟
اس میںکوئی دو آرا نہیںکہ گورننس ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ ذمہ داری انتظامی اور آئینی اداروں کی مدد سے پوری کی جاتی ہے اگر ریاست یا انتظامی ادارے گورننس میںناکام ہیں تو استعفی دے کر گھر جائیں اور ملک ہی ٹائیگرفورس کو سونپ جائیں۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com