گزشتہ روز ہونے والے گوجرانوالہ جلسے میں عوام کے ٹھاٹیں مارتے سمندر سے اس جلسے کی کامیابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت کے خیال میں یہ جلسہ ناکامی کا شکار ہوگا تاہم حکومتی بیانات سے ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ قبل از وقت بھی ہورہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر چوروں کے لیے اتنی بڑی تعداد میں عوام باہر کیوں نکلی؟ اگر عمران خان کا لوٹ مار، کرپشن اور احتساب کا بیانیہ درست ہے تو لوگوں کو تو گوجرانوالہ کا رخ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا مگر تمام تر کام اس کے برعکس ہوا اور لوگوں کا ایک جم غفیر جلسہ گاہ میں دیکھا گیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عوام نے اپوزیشن کے بیانیے کو قبول کیا ہے اور حکومتی بیانیے کو مسترد کیا ہے۔
بیانیے کے علاوہ بھی اگر حکومتی دعووں اور ان کے کام کو دیکھا جائے تو عوام یقینا حکومت پر اب اعتماد کرنے سے مکمل انکاری ہیں۔ مہنگائی کا جو عالم اس دور حکومت میں دیکھا گیا ہے اس کی نظیر اس کے قبل کہیں نہیں ملتی۔ حقیقیت یہ ہے کہ گوجرانوالہ جلسے میں لوگ اپوزیشن سے زیادہ حکومت کی مخالفت میں نکلے ہیں اور دعا گو ہیں تحریک انصاف سے کسی طرح جان چھوٹ جائے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سال رواں کے دوران مہنگائی میں اضافہ ہوگا جبکہ آئندہ برس بھی بے یقینی کی کیفیت برقراررہے گی۔ رپورٹ میں پاکستان میں بیروزگاری میں اضافہ کی خبر بھی دی گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت مہنگائی کو ملک کے ’ذخیرہ اندوزوں‘ کا کارنامہ قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے گریز کررہی ہے یا وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹائیگر فورس کو قیمتوں کی پڑتال کرنے اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا فریضہ سونپا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے دو سالہ دور حکومت میں معاشیات کا بنیادی سبق پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ بلاشبہ پاکستان کی معیشت کبھی اچھی نہیں رہی اور پاکستان کو طویل عرصہ سے معیشت کی بدحالی کا سامنا رہا ہے تاہم موجودہ حکومت کے دور میں حالات سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔ چینی کی برآمد، سبسڈی اور اب درآمد، اسی طرح گندم کی قیمت خرید کے تعین، بروقت خریداری سے گریز اور صارفین تک فراہمی کے میکنزم کو فعال بنانے میں ناکامی، ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے حکومت ان اجناس کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی چینی اور گندم کی قلت کو سیاسی رنگ دے کر نعرے بازی تو کی گئی لیکن ان بنیادی مسائل سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی گئی جن کی وجہ سے منڈی میں چینی یا گندم کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یا تو مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں کو دھمکیاں دی جاتی رہیں یا وزیر اعظم کو یہ سبق رٹایا جاتا رہا کہ قومی مالیاتی خسارہ کم ہوگیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ معیشت درست راستے پر گامزن ہے۔
بدقسمتی سے عوام کی حالت کی بہتری کسی وقت تحریک انصاف کا اولین ایجنڈا تھا مگر اب یہ اس کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آرہا۔ اس وقت حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن اور اس کا اتحاد ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومتی پوزیشن کو دیکھ کر وہ لطیفہ یاد آجات ہے کہ کہ ایک گاؤں کے چوہدری کے کسی دوسرے گاؤں میں کسی عرس پر کھانے کی دعوت ملی۔ وہ دعوت پر روانہ ہوا تو ساتھ اپنے منشی گامے کو بھی لے گیا۔ چوہدری صاحب جب دوسرے گاؤں پہنچے تو انہوں نے کہا چوہدری صاحب لنگر تقسیم بھی آپ نے ہی کرنا ہے۔ چوہدری صاحب نے بات مان لی ۔ وہ دیگ پر بیٹھے تو ساتھ گاما منشی بھی بیٹھ گیا دیگ کا ڈھکن کھلا پلاؤ کی خوشبو سے گامے کا دل بھر آیا اور وہ بھی لائن میں کھڑا ہوگیا۔ چوہدری نے منشی کو دیکھا تو کہا اوئے گامے تو میرے ذہن میں ہے ادھر بیٹھ جا۔ گاما چارو نا چار بیٹھ گیا۔ ایک دیگ ختم ہوئی دوسری دیگ شروع ہوئی گامے کی حسرتیں بڑھیں اور وہ دوبارہ لائن میں لگ گیا۔ چوہدری نے دیکھا تو کہا گامے تو میرے ذہن میں ہے آ میرے پاس بیٹھ جا۔ گاما پھر بیٹھ گیا۔
آخر تیسری اور آخری دیگ کھلی گاما پر لائن میں لگ گیا۔چوہدری صاحب نے پھر دیکھا تو کہا گامے تو میرے ذہن میں ہے ادھر بیٹھ جا۔ اس پر گاما بولا چوہدری صاحب مجھے دماغ سے نکالیں، تیسری اور آخردی دیگ کھل گئی ہے اور پیچھے کچھ نہیں بچا۔ کچھ یہی حال عمران خان صاحب کا بھی ہے کہ وہ اپوزیشن کو دماغ سے نکالیں اور دیکھیں کہ تیسرا سال شروع ہوگیا ہے لوگ مہنگائی اور غربت میں پس رہے ہیں۔ کسی کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو کسی کے پاس روزگار نہیں۔ کسی کے پاس بچی بیاہنے کے پیسے نہیں اور کسی کے پاس بچہ پڑھانے کے۔ اپوزیشن کا احتساب ضرور کریں مگر اپوزیشن کو ذہن پر اس قدر سوار مت کریں کہ لوگ بھوک سے بلک بلک کر مرجائیں۔
وزیر اعظم عمران خان اگر غور کرسکیں تو انہیں معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کی حکومت اپوزیشن پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے جو ہتھکنڈے اختیار کررہی ہے، عام آدمی اسے اپنے گھر یلو بجٹ کے خسارہ کی روشنی میں پرکھنے پر مجبور ہے۔ جب تک ملک میں عام لوگوں کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوں گے، سفارت کاری اور خارجہ تعلقات میں کامیابی کے بلند بانگ دعوے کسی حکومت پر اعتماد بحال نہیں کرسکتے۔ حکومت اگر بدعنوانی کے الزامات پر اصرار کرنے، اپوزیشن لیڈروں کو دھمکانے یا انہیں غداری کے مقدمات میں ملوث کرنے پر صلاحیتیں صرف کرنے کی بجائے، عوام کو ریلیف دینے کے ٹھوس منصوبوں پر کام کرتی تو اپوزیشن کے احتجاج کا مؤثر جواب دیا جاسکتا تھا۔
اس وقت حکومت کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ اپوزیشن کو جیل میں بھیجنا ہے اور اس کو نیچا دکھانا، معیشت، تجارت، روزگار، صحت اور دیگر تمام مسائل جو حقیقی مسائل ہیں وہ پس پشت ہیں۔ جانے کس نے وزیر اعظم صاحب کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ ان تمام مسائل کا حل اپوزیشن کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنےمیں پنہاں ہے۔ مزید برآں اس جلسے کی کامیابی کی وجہ ہرگز پیپلز پارٹی یا مولانا فضل الرحمان نہیں ہیں بلکہ نواز شریف کا بیانیہ ہے جس پر وہ فی الوقت ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ فوج نے ہمیشہ جمہوری حکومتوں کی مدد کی ہے تاہم اس مدد میں اس حد تک گزر جانا کہ حکومت کو اچھے برے کی تمیز نہ دینا اور اس کو اصل مسائل کی طرف توجہ نہ دلانا ہر گز غلط ہے اور اس سے ایک ادارے کی بدنامی ہورہی ہے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے کردار پر نظر ثانی کرے ورنہ نواز شریف کا بیانیہ ایک غلط رنگ لے رہا ہے اور اس سے سوائے اداروں کی تباہی کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اور یہ بات یقینی ہے کہ اگر حکومت کی ترجیحات درست ہوتیں تو یہ ریلی ہر گز ہرگز کامیاب نہ ہوتی۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com