حالیہ دنوںمیںہونے والی دو تقاریر نے پاکستان میںخوف کی فضا قائم کر دی ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میںیہ سوال ہے کہ ان تقاریر کے نتائج کیا نکلیں گے۔ ان میںسے ایک تقریر سابق وزیراعظم میاںنواز شریف نے کی ہے اور ایک حالیہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اوردونوںکے لہجوںسے یہ بات عیاںتھی کہ معاملات خوفناک حد تک آگے بڑھ گئے ہیں جو ملک کی سیاسی اورسیکورٹی صورتحال کے لیے تباہ کن نتائج کے حامل ہوسکتےہیں۔ ان تقاریر سے دونوں اطراف و جوانب سے لگتا ہے کہ وہ جمہوری روایات سے بلکل نابلد ہیں۔
ان تقاریرمیںصبرو تحمل کی بے پناہ کمی کے ساتھ ساتھ ہمارےسیاسی نظام کی بھی بھرپورعکاسی نظرآئی۔ یہ تقاریرواضح کرتی ہیں کہ پاکستان میںابھی تک جمہوری کلچردرست طریقے سےنہیں پنب سکا۔ کنونشن سنٹرمیں کی گئی وزیراعظم صاحب کی تقریر سے یہ بات سامنے آئی کہ ان میں صبروتحمل کی شدیدکمی ہے جوایک پختہ کارسیاسی شخصیت کا خاصا ہوتی ہے۔ بجا ہے کہ نواز شریف صاحب کی طرف سے الزامات سے بھرپورایک جذباتی تقریر کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف اس موقع پراپنےلیڈر سے ایسی ہی تقریر متوقع کررہی تھی تاہم سوال یہ ہے کہ کیا آگ کو آگ سے بجھایا جا سکتا ہے یا گالی کےجواب میںگالی نکالی جاتی ہے؟
نواز شریف نے اپنی تقریرمیں فوج پرکھل کر تنقید کی اور حکومت کو گرانے کا ذمہ دار بھی ادارےکو قراردیا جب کہ عمران خان کو بھی شدید تنقیدکا نشانہ بنایا جس کےجواب میں عمران خان صاحب نےبڑھ چڑھ کرتقریرکی جو دھمکیوں سے مرصع تھی۔ تاہم خان صاحب یہ بات بھول گئے کہ وہ ایک پارٹی کے سربراہ کے ساتھ ایک ملک کے وزیراعظم بھی ہیں اور ملک کو جوڑکہ رکھنا، اس کو محفوظ، پرامن اور مضبوط بنانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ نواز شریف صاحب بھی یہ بات بھول رہے ہیںکہ وہ ایک ملک کے بڑےسیاسی لیڈرہیں اوران کے غیرذمہ دارانہ بیانات ملک کی سیکورٹی کے لیے کس قدرخطرناک ہوسکتے ہیں۔ ایسا لگ رہاہےکہ دونوں طرف سے بندرکےہاتھ استرا لگنےوالی بات ہے اب چاہے جس کا سرمونڈھ دیں۔
میاں صاحب نے جس طرح قومی راز افشا کیےہیں وہ ایک وزیراعظم کو ہرگز زیب نہیںدیتا تاہم ان کے بیانات سے لگتا ہے وہ ذہنی طورپرمکمل طورپرتنہا ہو چکےہیں اورایساشخص اس قدرخطرناک ہوتا ہےکہ وہ ملک کو بدامنی کی طرف دھکیلنے سے بھی گریزنہیں کرتا۔ جبکہ اس موقع پر مسلم لیگ ن اور جماعت کے دیگر حلیفوں جیسا کہ پیپلز پارٹی اور فضل الرحمان کا کام ہے کہ وہ ان کو اس کام سے روکیں ۔ مگر یہاں پر الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ بجائے نواز شریف کو اس کام سے روکا جائے فضل الرحمان خود اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔
یہ دونوں تقاریر اپنے لہجوں سے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ مستقبل میں محض آرائی ہماری منتظر ہے اور یہ عمل جمہوریت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ جبکہ نواز شریف کی تقریر اور کے مندرجات ملک کی سماجی ، سیاسی اور سیکورٹی صورتحال کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہےجبکہ عمران خان کی تقریر ملک میںجمہوری نظام کے لیے انتہائی مضر ہے اور مجموعی طور پر یہ ملک کے جمہوری نظام کو کسی بھی وقت لپیٹ سکتا ہے۔
اگریہ گیارہ جماعتی اتحاد محاذآرائی کی طرف بڑھتا ہے تو حالات یقینا کشیدہ ہو جائیں گےاورصورتحال اس نہج پرپہنچ جائے گی کی ایک مرتبہ پھرمارشل لاء پاکستان پرمسلط ہو جائے گا۔ عمران خان کےاپوزیشن کے بارے نازیبا الفاظ اوران کےساتھ سختی سے نمٹنےکےعندیے نےحالات کو مزید خراب کیاہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ان مطلب اپوزیشن کے خلاف قوت کا استعمال ہے؟ اگرایسا ہے تو پھرکسی بھی خیرکی توقع عبث ہے۔ وقت ہےاپوزیشن اور وزیراعظم صاحب ہوش کےناخن لیں اوراس نوزائیدہ جمہوریت پررحم کریں۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com