قومی اسمبلی کے اجلاس میں سابق اسپیکر سردار ایاز صادق کا بیان اداروں پر دباؤ بڑھانے کے لیے پارٹی پالیسی کا حصہ ہے۔خبر یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس بیان پرپارٹی قیادت سے باقاعدہ مشورہ کیااور صحیح وقت کا انتطار کیاتاکہ نواز شریف کے بیانیہ کو تقویت دینے کے لیے افواج پاکستان کی صلاحیت پر سوال اٹھایا جائے۔اپنی بقا کی جنگ جس کی تیاری قوم سالوں کرتی ہے تاکہ کسی ایک تاریخی لمحہ کو اپنی کامیابی کا تاج پہن سکے اور اپنی نسلوں کے لیے عزم وہمت کی داستان چھوڑ سکے،مسلم لیگ کے سپوت ایاز صادق نے پاکستانی قوم سے فخروامتیاز کا وہ لمحہ چرانے کی کوشش کی ہے۔
سیاست کے میدانوں کے ان شاہسواروں کو خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ کس وقت الفاظ کا کیا چناؤ کرنا ہے اور ان سے کیا مقاصد حاصل کرنے ہیں۔قومی اسمبلی کے فلور سے دنیا کو اپنی سول اور ملٹری لیڈر شپ دونوں کا ایسا امیج پورٹریٹ کرنے کی کوشش کرنا جو دشمن کو جشن منانے کا موقع دے،پاکستان دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟اگرچہ ایاز صادق نے وضاحتی بیان بھی جاری کر دیا کہ ان کا بیان کوسیاق وسباق سے ہٹ کر رپورٹ کیا گیاتاہم اس سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں کی ترتیب اور باقی شرکاء بھی ان کے بیان کی نفی کرتے ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل بابرافتخار نے بڑے نپے تلے الفاذ میں ایاز صادق کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا بیان دیا گیا ہے جس میں ملکی سلامتی سے منسلک قومی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔26 فروری 2019 کو بھارت کو منہ کی کھانا پڑی تھی جس کی اسے اب تک تکلیف ہے۔میجرجنرل بابرافتخار کے مطابق اس معاملہ کو کسی اور طرح جوڑنا افسوسناک اور گمراہ کن ہے۔ یہ بھارت پر پاکستان کی واضح فتح کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہے اور ایسا عمل کسی کو بھی قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان نے دن کی روشنی میں بھارتی حملوں کا کامیاب جواب دیااور ابھی نندن کی واپسی امن کے واضح پیغام کے طور پر کی گئی تھی کیونکہ ہم جنگ نہیں چاہتے تھے۔تاریخ میں یہ درج ہے کہ انڈیا کے نصب شدہ تینوں میزائل نہ صرف پاک آرمی نے ٹارگٹ کر لیے تھے بلکہ نو ٹارگٹس لاک کر کے انڈیا کو پیغام بھی دے دیا تھا کہ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ منفی بیانیہ کے قومی سلامتی پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کو دنیا میں تسلیم کیا گیا۔
افسوس سردار ایاز صادق کو حقائق بتاتے ہوئے کپکپاتی ٹانگیں اور ماتھے پر پسینہ تونظر آیا لیکن سول ملٹری قیادت کے ارادے کی پختگی اور عملی اقدام یاد نہیں رہے۔دوسری جانب نواز شریف اپنا بیانیہ دیتے ہوئے شاید اس حد کا تعین کرنا بھول گئے تھے۔ ماریں گے یا مر جائیں گے کے مصداق انہوں نے اپنی ساری کشتیاں تو جلا ڈالی ہیں لیکن ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی سیاست کو بھی آگ کی لپیٹ میں لے آئے ہیں اور اس بات کا اقرار خود لیگی رہنما بھی کرتے ہیں ان میں سے شاہد خاقان عباسی سمیت بیشتر ایاز صادق کے بیان کی مذمت کرتے ہیں تاہم بعض ایسے بھی ہیں جو ایاز صادق کے اس بیان کو اختلاف رائے کے لبادے میں لپیٹنے کو کوشش کر رہے ہیں۔
سردارایاز صادق کا بیان نواز شریف کے بیانیہ کا تسلسل ہے۔اجمل قصاب کا پتہ فراہم کرنا،ممبئی حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا بیان، امریکی میزائل کی نقل تیار کرنے کا اقراراور اب یہ بیان سب لیڈر شپ کی ملک سے محبت کے ثبوت ہیں یا کچھ اور؟ اس کا فیصلہ پاکستانی عوام کے ہاتھ میں ہے۔یہ وہی لیڈر شپ ہے جو کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ گئی تھی اورباہمی محبتوں کا اظہار ساڑھیوں کے تبادلے سے کرتی رہی ہے۔
سلامتی سے متعلق اس پارلیمانی رہنماؤں کی بریفنگ کے گواہ صرف ایاز صادق، اسد عمر اور پاک فوج کے نمائندے نہیں ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے پارلیمانی رہنما قومی سلامتی سے متعلق حقائق کو مسخ کرنے کی اس کوشش کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام ،بی این پی مینگل اور پی ڈی ایم کے جھنڈے تلے جو باقی جماعتیں جمع ہیں کیا فوج مخالف بیانیہ کے ساتھ ساتھ قوم مخالف بیانیہ میں بھی وہ سب ایک صف پر ہیں یا نہیں تاکہ دودھ کا دودھ ا ور پانی کا پانی الگ ہو سکے۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
ہفتہ ،31 اکتوبر 2020