امریکی انتخابات کو دنیا بھر میں بڑی پذیرائی ملتی ہے، سب سے پرانی جمہوریت، مضبوط ترین معیشت، مضبوط اور طاقتور فوج، سائنس اور ٹیکنالوجی میں برتری اور دنیا کی سپر پاور اتنی ساری خصوصیات کے ساتھ الیکشن دنیا کے اگلے چار سالوں کی قسمت کا تعین کر سکتے ہیں۔اسی لیے امریکا کے الیکشن پر سب کی نظر ہوتی ہے۔
2016 میں ٹرمپ کوپہلے اپنے اقتدار کے آغاز پر اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ناپسندیدگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کی پالیسیوں کے بارے میں شکوک وشبہات بھی تھے۔امریکا فرسٹ کی پالیسی کی رو میں بہہ کر ٹرمپ بہت سے دوسرے ملکوں اور لیڈروں کے بارے میں ہتک آمیز جملے بولنے میں بالکل دریغ نہیں کرتے تھے۔آتے ساتھ ہی دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر مختلف اسلامی ممالک کے شہریوں پر پابندیوں نے مسلم ممالک میں ہلچل مچا دی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ حالات بہتر ہو گئے۔ٹرمپ کی غیر مستقل مزاج طبیعت کا رنگ ان کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں میں صاف نظر آتا ہے۔آنے والے الیکشن سے مختلف ملکوں کی کیا توقعات ہیں اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستان پر اثرات
پاکستان پر الیکشن کے غیر معمولی اثرات کی توقع نہیں کی جا رہی۔افغان امن معاہدہ کے بعد امریکی فوج کا انخلا کا مرحلہ مکمل ہونے تک تو پاکستان کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن خطہ میں دہشت گردی کی بدلتی ہوئی صورتحال اور بھارت کا اس میں کردار امریکا کی آشیر باد سے تعلق رکھتا ہے۔ جو بایئڈن کے آنے سے انسانی حقوق، دہشت گردی کاقلع قمع کرنے پر زوراور امریکن سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ کشمیریوں کے حقوق کی بات کی جائے گی وگرنہ ڈیموکریٹس بھی بھارت کے ساتھ سماجی، تجارتی، فوجی اورعوامی ترقی کے منصوبوں پر ہی زور دینگے۔۔افغانستان میں اپنی فوج رکھ کر امریکا پاکستان اور ایران کے جوہری پروگرام پر بھی نظر رکھ سکتا ہےاور یہ اس کے اتحادی بھارت کے مفاد میں بھی ہے۔ ٹرمپ کی موجودگی میں پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے زور بڑھ سکتا ہے۔ یہ ٹرمپ کی بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔دیگر باہمی مفادات میں نوجوانوں کا اعلی ٰتعلیم کے لیے امریکا جانا،تجارتی تعلقات کا فروغ اورایف اے ٹی ایف اے سے نکلنے کے معاملات کا گہرا تعلق شخصیات سے نہیں بلکہ امریکا کے مفادات سے ہےجس پر پالیسی بدلتی رہتی ہے۔
ہانگ کانگ کیا چاہتا ہے؟
ہانگ کانگ میں ٹرمپ کو اگلے چار سال تک صدر دیکھنے کی خواہش بڑی شدید ہے۔کیونکہ اسے چین کی جانب سے بہت سی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔ چین کے نئے سیکورٹی قوانین کی ہانگ کانگ میں کافی مذمت کی جا رہی ہے۔انھیں ایسے امریکی صدر کی ضرورت ہے جو چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے بند باندھ سکے۔صدر ٹرمپ اپنےدوراقتدار میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت،نئی نیٹ ورکنگ اور بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف بات کرتے رہے ہیں۔انہوں نے چین پر 1984 کے معاہدے کے تحت اپنے فرائض سے رو گردانی کا بھی الزام لگایا۔
چین کے لیے ٹرمپ کیوں بہتر چوائس ہے؟
چین اور امریکا معاشی جنگ کے زبردست حریف رہے ہیں۔دونوں پچھلے سالوں میں اپنی معیشت بہتر کرنے اور زیادہ سے زیادہ منڈیوں تک رسائی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حالیہ کورونا وبا نے چین کے مقابلے میں امریکا کے معاشی نظام کو سخت دھچکا لگایا ہے۔بیروز گاری اور وبا کی وجہ سے شرح اموات پر کنٹرول نہ کر سکنا امریکا کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ کورونا وبا میں چین کا کردار ٹرمپ کے نزدیک ہمیشہ قابل مذمت رہا ہےحتی کہ امریکا نے عالمی ادارہ صحت کو کورونا وبا کے پھیلاؤ میں مبینہ طور پر چین کا ساتھ دینے کے الزام پر فنڈنگ بھی روک دی۔
چین کی انٹلی جنس کمیونٹی کے مطابق ڈونلڈٹرمپ کے تنقیدی اور سخت رویئے کی وجہ سے چین انھیں مستقبل کا صدر دیکھنا پسند نہیں کرے گا تاہم پروفیسر یان جوادارہ برائے عالمی تعلقات بیجنگ تسنگ ہایو یونیورسٹی کے ڈین ہیں کے مطابق الیکشن میں چین کی ترجیح جو بائیڈن کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ ہونگے۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ وہ چین کو بائیڈن کے مقابلے میں کم نقصان پہنچائیں گے بلکہ اس لیے کہ وہ امریکا کو بایئڈن کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔
متعدد نمایاں چینی مبصرین سمجھتے اور کھلے عام کہتے ہیں کہ امریکا کا معاشی اور سیاسی زوال و انحطاط چین کے لیے ابھرتی عالمی طاقت کی حیثیت سے خوش آئند ہے۔ وہ کورونا اور ڈونلڈٹرمپ کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں جو اکثر ڈیمو کریٹس کے برعکس عمل کر گزرتے ہیں۔اس لیے چین کے لیے امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب زیادہ پر کشش ہو گا۔
بھارت کا مفاد کیا ہے؟
ا مریکا اور بھارت کے تعلقات پرامریکی انتخابات کے اثرات زیادہ نمایاں نہیں ہوتے۔دونوں ممالک کے علاقائی،تجارتی اور فوجی مفادات کی جڑیں کافی گہری ہیں۔عام طور پر انڈیا کا رحجان اس وقت جو بائیڈن کی طرف زیادہ ہے۔ جسکی وجوہات میں ٹرمپ کی غیر مستقل مزاجی،حالیہ چین انڈیا تنازع میں سرد مہری اور ویزوں پر قدغن ہے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے انڈیا کو ڈیفنس ٹیکنالوجی تک جو رسائی دی ہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔انڈیا سے ہونے والی دہشت گردی،افغانستان میں کردار،بلوچستان میں پیدا کی جانے والی بے چینی ایسے معاملات ہیں جنھیں دونوں ممالک اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتے رہتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دنیا کسی بڑے جنگی جنون سے نہیں گزری۔انھوں نے ڈپلومیسی سے اسرائیل کو تسلیم کروانے میں بہترین کردار ادا کیااور خطے میں اسرائیل کی پوزیشن مضبوط کی۔
ایران،روس اور شمالی کوریا
ایران کے ساتھ امریکا نے ٹرمپ کے دور میں کوئی نرمی نہیں دکھائی تاہم عام رائے یہی ہے کہ کس کی بھی جیت ہو ایران کے خلاف پابندیاں امریکا کی قومی پالیسی کا حصہ رہیں گی۔ایران کو اسرائیلی مفادات پر اثر انداز ہونے کے لیے فری ہینڈ دینا کوئی امریکی حکومت قبول نہیں کر سکتی۔
روس اس وقت اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہے۔تاہم امریکی الیکشن کے اثرات اس کی موجودہ علاقائی اتحاد پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔جن مین چین اور پاکستان شامل ہیں۔
شمالی کوریانے ٹرمپ کے آخری سالوں میں اپنے بلاسٹک میزائیل کی آزمائش روک رکھی تھی۔ لیکن کسی بھی امریکی حکومت سے اسے فرق نہیں پڑتا ماسوا اس کے کہ اپنی فوجی تیاریوں کو کم اور زیادہ کرتا رہے۔
بی بی سی کے GLOBAL ATTITUDE SURVEY 2020 SUMMER کے مطابق 83 فیصد افراد کا صدر ٹرمپ پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ دنیا کے معاملات کے لیے بہتر فیصلے کر سکیں گے۔یہ سروے برطانیہ،سویڈن،فرانس،اٹلی،آسٹریلیا،ڈنمارک،نیدر لینڈ،جرمنی،بلجیئم،جاپان،کینیڈا اور فرانس میں کیا گیا۔ امریکا میں ایشین امریکن لابی کے مطابق زیادہ تر ایشن باییڈن کی حمایت کرتے ہیں۔بہرحال آج ہونے والے انتخابات میں اگلے حکمرانوں کا تعین ہو جائے گا۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
منگل،3 نومبر2020