امریکا نے گزشتہ دنوں پاکستان سے چوری شدہ مہاتما بدھ اور اس کے دور کی 45 قیمتی اشیا پاکستان کے حوالے کیں۔ ان نوادرات کی قیمت ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر ہے۔منھاتن کی ڈسٹرکٹ اٹارنی ونس جونئیر نے ایک تقریب میں یہ نوادرات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ علی کے حوالے کیں۔ ان نوادرات میں مہاتما بدھ کا چادر اوڑھے مجسمہ، مقدس درخت کے نیچے بیٹھے مہاتما بدھ کی مورتی کے علاوہ چٹانوں پر نقش کئی مجسمے شامل ہیں جو دوسری صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔پاکستانی قونصل جنرل نے اپنے ریمارکس میں امریکی آفس کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کئی مہینوں کی مسلسل کوشش کے بعدچوری شدہ اس پاکستانی ورثہ کی باز یابی ممکن ہوئی ہے۔ مسٹر وینس کے بقول انھیں یہ نوادرات پاکستان کو واپس کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ یہ نوادرات پاکستانی لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنے آفس کی جانب سے عالمی تہذیبی وراثت کے تحفظ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ ایسے نوادرات کی تلاش میں رہتے ہیں جو چوری شدہ ہیں تاکہ انھیں اصل مالکان کو لوٹایا جا سکے۔
یو ایس ہوم لینڈ سکیورٹی آفس کے نمائندے ایرک روزن کے مطابق ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس کے تعاون سے 2015 سے اب تک نائف حمسی سے سو سے زیادہ قیمتی نوادرات قبضے میں لی گئی ہیں جو پاکستان،افغانستان،بھارت اور دوسرے ایشیائی ممالک سے نوادرات کی چوری اور بیرون ملک منتقلی میں خاصا بدنام ہے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی نے چند سالوں میں ایسی چوریوں کی روک تھام اورواپسی کے لیے عالمی اورمقامی حکومتوں کے تعاون سے کافی کام کیا ہے۔ منھاتن ڈی اے کے نوادرات ا سمگلنگ یونٹ نے سمگل شدہ بہت سے نوادرات کی واپسی ممکن بنائی ہے۔ان میں بھارت اور لبنان کے علاوہ دیگر ممالک کو واپس کیے جانے والے کئی ارب ڈالرز کے نوادرات بھی شامل ہیں جو مختلف امریکی گیلریز میں فروخت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔
قیمتی اور نایاب چیزوں سے محبت کرنا اور ان کی ملکیت کی خواہش کرنا جائز ہے مگر ان کے حصول کے ذرائع بعض اوقات غیر قانونی بھی ہو جاتے ہیں۔ نوادرات اور تاریخی ورثہ کی چوری ماضی کی طرح آج بھی عام ہے۔دنیا بھر میں نوادرات جمع کرنے کے شوقین اور انہیں فروخت کرنے والی گیلریز ایسے عالمی چوروں سے رابطے میں رہتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ان خزانوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔
پاکستان،افغانستان اور بھارت ایسے خطے ہیں جہاں کی تہذیب اور خاص طور پرگندھارا تہذیب دنیا بھر کے لیے بہت اسرار اور کشش رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نوادرات کے ڈیلرز مقامی افراد کے ذریعے ایسے تاریخی مقامات سے ملنے والے نوادرات کے لیے ہمہ وقت کھوج میں رہتے ہیں اور انھیں معمولی رقم کے عوض اپنا قیمتی ورثہ بیرونی ملک منتقل کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
جولائی 2012 میں کراچی پولیس نے نوادرات سے بھرا ایک کنٹینر پکڑا بعد میں کورنگی وئیر ہاؤس سے بھی نوادرات قبضے میں لیے گئےجن میں تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے بعض نوادرات جعلی تھے۔ تاہم تین سو تیس نوادرات کو محکمہ آثار قدیمہ نے رجسٹرڈکیا۔ جس پولیس اسٹیشن کے کمپائنڈ میں یہ نوادرات رکھے گئے تھے وہاں سے بائیس نوادرات پھر چوری ہو گئے جس کی ذمہ داری لینے کے لیے کوئی تیا ر نہیں۔ قومی ورثہ کی اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی نقل و حرکت ملک کو ایک جانب اپنے ورثے سے محروم کر رہی ہے تو دوسری طرف زر مبادلہ کا نقصان ہے۔ ایسی خبریں گاہے بگاہے ملکی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
گندھارا تہذیب کے نوادرات کے علاوہ نوابوں کے محلات سے بھی قیمتی اور تاریخی اشیاء کے چوری ہونے اور بیرون ملک ا سمگل ہونے کے واقعات کی روک تھام کی ضرورت ہے۔ 2012 میں ہی نواب آف بہاولپور کے محل سے برطانوی دور کے قیمتی مجسمے اور دیگر نوادرات چوری ہوئے لیکن مخبری پر انھیں جلد ہی برآمد بھی کر لیا گیا۔ دنیا میں اب اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ لوٹا ہوا ورثہ اصل مالک اور حکومت تک واپس پہنچایا جانا چاہیے تاکہ ہر علاقے کے رہنے والے اپنی تہذیب اور ثقافت کے تاریخ سے آگاہ رہ سکیں۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
جمعرات،5 نومبر2020