پاکستان کے سیاسی افق پر تیزی سے وقوع پذیر ہوتے واقعات میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادی بھی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔جب پوری قوم انتہائی توجہ سےبلاول اور مریم کی سیاست کا تماشہ دیکھنے میں مگن تھی تو وزیراعظم عمران خان نے اتحادیوں کوظہرانہ پر بلا لیا۔ظہرانہ کی دعوت اتحادیوں کے درمیان موجودکشیدگی کو سامنے لے آئی۔
مسلم لیگ ق پنجاب کی سیاست میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پنجاب حکومت بنانے اور چلانے میں اس کے تعاون کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ق لیگ کا یہ گلہ کہ وزیر اعظم لاہور آتے ہیں تو ق لیگ کی قیادت سے ملتے نہیں ہیں اور نظر انداز کرتے ہیں، سنجیدگی کا متقاضی ہے ۔ مونس الہیٰ کا ٹویٹ پارٹی کے اندر فریسٹریشن اور غم و غصہ کو ظاہر کرتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ حکومت سے ہمارا اتحاد ووٹ کے لیے ہے۔ہمارے معاہدہ میں عمران خان کے ساتھ کھانا کھانا شامل نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ ملک کی سیاسی حالات کی افراتفری میں وزیراعظم کے پاس وہ سینئرقیادت کم پڑ گئی ہے جو سیاسی لوگوں سے سیاسی انداز میں بات کر کے انھیں انگیج کر سکیں تاکہ ان مشکل حالات میں حکومتی صفوں میں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہ ہو۔
وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ جن کا تعلق ق لیگ سے ہے ان کی آٹھ مہینے سے وزیراعظم عمران خان سے ون آن ون ملاقات ہی نہیں ہوئی جبکہ اس وقت سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہاؤسنگ پراجیکٹس میں ہو رہی ہے۔ طارق بشیر چیمہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اگرپنجاب سے متعلق مشاورت میں شریک نہیں کرتی تو ہمیں کھانے میں بھی کو ئی دلچسپی نہیں ہے۔ دوسری طرف چودھری شجاعت حسین کچھ دنوں سےشدید علیل ہیں اور سروسزاسپتال لاہور میں زیر علاج ہیں ۔ان حالات میں عمران خان کے دست راست جہانگیر ترین کی اچانک پاکستان واپسی بہت سے سوالات پیدا کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست میں جہانگیر ترین کا کردار بہت اہم ہے۔ سیاسی بصیرت،جوڑ توڑ اور سیاسی معاملات میں اتحادیوں کوساتھ رکھنے میں ان کو ملکہ حاصل ہےا گر چہ ان کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں ہےتاہم پارٹی کے اہم امور ان کے ذریعے طے پاتے تھے۔ایم کیو ایم ہو یا ق لیگ یا سردار اخترمینگل سے معاملات طے کرنا ہو وہ ہر جگہ مذاکرتی ٹیم کا حصہ ہوتے تھے۔ق لیگ نے تو کچھ عرصہ پہلے پیدا ہونے والے اختلافات میں کسی اور ٹیم سے بات کرنے سے بھی معذرت کر لی تھی۔وزیراعظم عمران خان کا دست راست ہونے کی وجہ سے ان کے وعدوں پر سب اعتبار کرتے ہیں۔جہانگیر ترین کی واپسی عمران خان کو نئی قوت دے گی کیونکہ اس وقت حکومت کے سامنے چیلنجز بے شمار ہیں پنجاب اور خاص کر جنوبی پنجاب کےعلاوہ گلگت بلتستان اور اگلے سال آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی ترین کے جادو کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ق لیگ کی حکومت سے ناراضی خطرے کی گھنٹی نہ بھی ہوئی تو بھی حکومتی عدم استحکام کی طرف لے جا سکتی ہے۔ جہانگیر ترین وہ شخصیت ہیں جو نہ صرف اس اتحاد کو قائم رکھ سکتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر ق لیگ کے بغیر بھی حکومت کے لئےسیاسی سہاراکا بندوبست کر سکتے ہیں۔ ن لیگ کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ میں پنجاب کے ارکان کی نبض پر جتنا اچھا ہاتھ ان کا ہے کسی اور کا نہیں ہے۔اس لیے یہ سمجھ آتا ہے کہ جہانگیر ترین کی اس وقت واپس کسی ’’ انڈر سٹینڈنگ‘‘ کا حصہ ہے۔
جہانگیر ترین کی سات ماہ بعد وطن واپسی سے چینی کے بحران سے نمٹنے میں بھی حکومت کو مدد ملے گی۔حکومت پندرہ نومبر سے کرشنگ شروع کرنے کا کہہ چکی ہے جسے رکوانے کے لیے بعض شوگر مل مالکان سٹے آرڈر کے لیے لاہور ہائی کورٹ بھی چلے گئے ہیں۔جہانگیر ترین نے آتے ہی دس نومبر سے ملوں میں کرشنگ کا آغاز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگرکرشنگ شروع ہو جاتی ہے تو اگلے دو ہفتوں تک نئی چینی مارکیٹ میں آنا شروع ہو جائے گی جس سے قیمت میں نمایا ں کمی ہو جائے گی۔یہ قدم جہانگیر ترین نے کلین چٹ ملنے کی یقین دہانی پر ہی اٹھایا ہےجو کسانوں کے لیے بھی خوش آئند ہےکیونکہ تقریباً بیس فیصد شوگر ملیں جہا نگیر ترین کی ہی ہیں اور حکومت اس وقت پھر کسانوں کا سڑکوں پر آنابھی افورڈ نہیں کر سکتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین کی شوگر ملیں دیگر تمام شوگر ملوں سے کئی گنا زیادہ ٹیکس دیتی ہیں۔ ایف آئی اے نے انھیں شوگر انکوائری کیس میں طلب کر رکھا تھا اگر وہ واپس نہ آتے تومعاملات مزید پیچیدہ ہو جاتے اور عمران خان پر دوستوں کو این آر او دینے کا الزام لگ جاتا۔
پی ٹی آئی کے اندر اس وقت جہانگیر ترین کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہےکیونکہ شوگر انکوائری کیس میں ان پر ابھی الزامات ثابت نہیں ہوئے اور ان کی ٹیم نے انکوائری کے ہر مرحلہ پر قانون کا مکمل ساتھ دیا ہے۔علاج کے لیے بیرون ملک جانے والے جہانگیر ترین اب واپس ا ٓگئے ہیں اور جلد ہی ان کی وزیر اعظم سے ملاقات بھی طے ہو جائے گی۔امکان ہے کہ الزامات کی تحقیقات اور نتائج آنے تک جہانگیر ترین کو پہلے کی طرح اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
اتوار،8 نومبر2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com