اللہ پاک کی ذات فرماتے ہیں کہ ہماری نجات اخروی زندگی میں پنہاں ہے۔ لیکن اس اخروی زندگی کا مطلب کیا ہے؟
مجھے آخرت کی وضاحت کرنے دیں کہ آخرت سے آخر مراد کیا ہے۔آخرت یا مرنے کے بعد کی زندگی وہ زندگی ہے جو دائمی ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ جسم وقتی ہے اور اس کو دنیاوی مخلوق نے کھا جانا ہے اور جو جیز ہمیشہ باقی اور ابدی رہے گی وہ انسان کے اندر موجود روح ہے جو تاقیامت باقی رہے گی۔
اس دنیا میں ہماری روح کی فطرت کا اندازہ ہمارے جسمانی اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ روح ہی ہے جو جسم کو زندگی عطا کرتی ہے اور جسم اس روح کو زندگی کے تجربات سے آشنا کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم خود اور ہماری روح دنیاوی معاملات کے دوران اور دنیاوی تجربات سے بدلتی رہتی ہے۔ اور جب بھی ہم زندگی میںکسی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں تو ہم اس تجربے کو محسوس کر کستے ہیں۔ اور خاصطور پر جب ہم خود کو لالچی یا نا امید محسوس کرتے ہیں تو یہ تجربہ زیادہ واضح ہو جاتاہے۔
جب انسانی جسم گل سڑ جائے گا تو روح کے یہ خصائص ابدی زندگی میں کھل کر سامنے آجائیں گے۔ ہم جیسے جیسے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں ہماری روح کی طاقت بڑھتی جاتی ہے۔ بڑھاپے کے ساتھ جسم کا خاتمہ نظر آنے لگتا ہے مگر روح لافانی ہے اور ہم اس کے فنا ہونے کے بارے میںکچھ نہیںجانتے۔ مزید برآں زمین و آسمان کا خالق کبھی بھی اچھای کا خاتمہ نہیںکرتا اس لیے ایک اچھی روح ابدی زندگی میں بھی ایسے ہی قائم رہے گی اس لیے روح کی اچھائی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے جب ابدیت اس دنیا کے بعد آنی ہے اور صرف روح ہی باقی رہنی ہے تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ دنیا میں ایسے کونسے اعمال ہیں جو ہماری روح کو فائدہ دے سکتے ہیں۔
اللہ پاک کی ذات ایسے شخص کو پسند نہیں فرماتیں جو اس دنیا کو ابدیت پر ترجیح دیتا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے لوگ جو دن کو پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں اور دنیا میں صرف اتنی دلچسپی رکھتے ہیںجتنی ان کی دنیاوی ضرورت ہوتی ہے وہ لوگ بہتر ہیں ۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب بھی ہمیں دنیا اور آخرت کی زندگی میں سے کسی ایک انتخاب کرنا ہو تو دنیاوی زندگی پر اخروی زندگی کو ترجیح دیں یعنی وہ کام کریں جو ہمیں اخروی زندگی میں فائدہ دے گا۔ اور اگر ہم دنیاوے فائدے کو آخرت کے فائدے پر ترجیح دیتے ہیں تو یقینا ہم خسارے میںہیں۔
یہ بات حقیقت ہےکہ اللہ نے ہمیں اس بات کی ہدایت کی ہے کہ ہم اس دنیا میں خود کو مشغول نہ کرلیںاور دنیا کے پیچھے خود کو برباد نہ کردیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہےکہ ہم دنیاوی معاملات سے بالکل منہ موڑ لیںبلکہ اس کا مطلب ہے کہ ہم ایسا کام کریں جس سے ہمیںآخرت میں نقصان نہ ہو۔ درحقیقت اس دنیا کی نعمتیں ایمان والوں کے لیے جنت کی خوشبو کے مترادف ہیں اوراللہ کے احکامات کو پورا کرنا ایمان والوںکی ذمہ داری ہے اور اس کے احکامات سے روگردانی کرنا بے ایمانی کی علامت ہے۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دماغ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ دل کا معاملہ ہے ۔ اگر تم اس بات میں شک رکھتے ہو کہ اللہ تمہیں ہمیشہ عطا کرتا رہے گا اور تم اللہ کے سوا کسی اور سے دنیاوی ضروریات کی طلب رکھتے ہو تو یہ دنیا تمہارے لیے بدترین ہے۔ تاہم اگر تم دل سے اللہ کی عطا کردہ چیزوں پہ شکر بجا لاؤ اور اس کی نعمتوں پرشاکر رہو تو اللہ تم پر اپنی نعمتوں میںمزید اضافہ کرے گا اور یہ دنیا تمہارے لیے بہترین ہو جائے گی۔
ہمیںاحتیاط سے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے اور دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری روح کی بہتری کیسے ممکن ہے ۔ تبھی یہ ممکن ہے کہ ہم حلال زندگی بسر کر سکیں۔ سکالرز آپ سے کہیں گے جب آپ نے حکومتی ٹیکس ادا کر دیا ہے تو اپنی دولت میںاضافہ کرنے میںکوئی عذر نہیں اور یہ حلال ہے تاہم یہ بات درست نہیںہے۔ اول ہر آدمی کو اپنے اندر جھانکنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہر شخص اللہ کے سامنے تن تنہا حاضر ہوگا اور اللہ اس کے دل میں جھانکیں گے ۔ اللہ کبھی انسان کے دماغ میںنہیںجھانکیں گے کہ تم نے کتنا کتابی مطالعہ کر لیا ہے تاہم وہ دل میں جھانک کر یہ ضرور جانیں گے کہ آپ کے دل میںاللہ کی کتنی چاہت ہے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو شاید آپ کو بہت کچھ چھوڑنا پڑے گا۔
اپنی ذات پر بھروسہ رکھیں اور خلوص کا رستہ اپنائیں۔ سکالرز اور ماہرین کی باتوں پر کان نہ دھریں اور ان سے یہ توقع مت کریں وہ آپ کی نجات کا ذریعہ بنیں گے ۔ آپ کو خود شناسی اور رب شناسی کی درست کوشش کرنی چاہیے اور اس بات کا چرچا بھی نہیں کرنا کہ آپ رب شناسی کی طرف مائل ہیں۔ اللہ ہمیشہ انسان کو رہنمائی فرماتا ہے اور اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا اللہ نے دنیا کو ایک آئینے کی طرح پیدا کیا ہے جس میں ہر آدمی اپنا عکس دیکھ سکتا ہے۔ مزید ہمارا سب کچھ اس ذات کے قبضے میں ہے اس لیے اپنے اندر اور باہر پر غور کریں اور اس کو اللہ کی منشا کے مطابق ڈھالیں۔
بدھ، 18نومبر 2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com