وزیراعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات بھی کی۔ واضح رہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان کا یہ پہلا دورہ افغانستان ہے جبکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کے بعد کسی پاکستانی کا سب سے ہائی پروفائل دورہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان افغانستان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ایک جانب افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے ہونے کے باوجود ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات دو ماہ گزرنے کے باوجود باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوئے ہیں۔ دوسری جانب امریکی انتخابات کے بعد جو بائیڈن کی فتحاور اس کے بعد کی صورتحال بھی پاکستان کے پیش نظر ہے اوریہ دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے۔
واضح رہے کہ جوبائیڈن کی فتح سے نہ تو طالبان خوش ہیں اور نہ ہی پاکستان بلکہ بجا طور پر کہا جائے تو جو بائیڈن کی فتح سے پاکستان کی مدد سے شروع ہونے والی امن بات چیت دوبارہ صفر پر پہنچ جائے گی اور یہی کچھ افغان صدر اشرف غنی بھی چاہتے تھے۔ اشرف غنی اس انتظار میںتھے کہ وہ کسی طرح امریکی انتخابات امن بات چیت کو ٹالتے رہیں اور وہ اس کو بلاشبہ ٹالتے بھی رہے اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصتی کا مطلب یہ ہوگا کہ اشرف غنی کو مزید وقت مل جائے اور یہ بات عین اشرف غنی کی توقعات کے مطابق ہوئی ہے۔
دوسری جانب طالبان جو بائیڈن کی فتح سے ہرگز خوش نہیں اوریہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے امریکی کے انتخابی نتائج پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جو بائیڈن کی فتح کو قبول تو کیا لیکن انہیں مبارک باد نہیں دی ہے۔ تاہم انہوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ مستقبل میں امریکہ سمیت تمام دیگر ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات چاہتے ہیں۔ یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک ماہ قبل جب پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندے زلمے خلیل زاد کو ڈیموکریٹس نے طلب کیا تھا تو طالبان امریکہ معاہدے پر بہت زیادہ بحث مباحثہ ہوا۔ سیاسی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد صدر ٹرمپ کے کیے گئے معاہدوں میں تبدیلی کا امکان ہے۔ افغان طالبان نے جو بائیڈن کے نئے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ نومنتخب صدر سابقہ دور کے معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ طالبان کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے کسی شخص سے نہیں بلکہ امریکی حکومت سے معاہدہ کیا تھا۔ طالبان کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کچھ گھبرائے ہوئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ انہیں خطرہ ہے کہ معاہدہ ختم نہ ہو جائے۔
دوسری جانب افغان حکومت یہ سوچ سکتی ہے کہ بائیڈن کی جیت کا مطلب امریکی پالیسی میں رد و بدل ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کا سابق امریکی نائب صدر کی حیثیت سے اپنی مدت کے دوران افغانستان کے بارے میں نظریہ صدر ٹرمپ سے مختلف نہیں رہا۔ بائیڈن نے امور خارجہ کے بارے میں اس سال کے شروع میں لکھا تھا، ’’اب جنگوں کا خاتمہ کرنے کا وقت آ گیا ہے، جس سے امریکہ کو خون اور خزانے کی بے حساب قیمت چکانا پڑی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’جیسا کہ طویل عرصہ سے میرا یہی کہنا ہے، ہمیں اپنی فوج کی اکثریت کو گھر واپس لانا چاہئے۔ افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں اور القاعدہ و داعش کے خلاف اپنے مشنوں کو مختصر کرنا ہو گا۔‘‘ اگرچہ اس پر تبصرہ کرنا ابھی قبل از وقت ہی ہو گا لیکن کوئی بھی یہ فرض کر سکتا ہے کہ بائیڈن افغانستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کی پالیسی کو جاری رکھیں گےمگر اس ضمن میں پاکستان اور طالبان دونوں ہی خدشات کا شکار ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے افغان حکومت امن معاہدے پر تحفظات رکھتی ہے جس میں ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ طالبان کو مستقبل کی حکومت کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان ان لوگوں کو پناہ نہیں دیں گے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں۔ دوسری جانب پاکستان طالبان کی اعلیٰ قیادت کو پاکستان باضابطہ دعوت دیتا ہے جس میں طالبان کی عسکری قیادت کوئٹہ شوریٰ، پشاور یا میران شاہ شوریٰ ہے۔ یہ واحد ملک ہے جو طالبان پر اسی یا نوے فیصد اثررکھتا ہے۔ اس لیے بائیڈن کے آنے سے پاکستان پر دباؤ بڑھے گا۔
بائیڈن اگر افغانستان مذاکرات پر مکمل یو ٹرن لیتے ہیں تو پاکستان کے کیےکرائے پر پانی پھرسکتا ہے تاہم افغان حکومت اگر طالبان سے مذاکرات اور امریکی افواج کی واپسی کےلیے امریکہ پر دباؤ ڈالے تو بائیڈن ممکنہ طور پر اس معاہدے کی پاسداری کر لیں۔ وزیراعظم عمران خان کا دورہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتاہے کہ پاکستان اشرف غنی کو اس بات پر قائل کرے کہ افغانستان میں امن اس کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اشرف غنی اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں ۔ دوسری جانب افغانستان میں قیام امن کے لیے اب تمام نگاہیں جو بائیڈن کی پالیسی پر مرکوز ہیں کہ آیا وہ صدر ٹرمپ کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے فوری طور پر افغانستان سے تمام افواج نکالتے ہیں یا وہ اس سلسلے میں کوئی نئی پالیسی سامنے لاتے ہیں۔
اس دورے کی ایک اہم بات گذشتہ ہفتے 14 نومبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ ایک اہم پریس کانفرنس بھی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے پاس بھارت کے پاکستان میں مبینہ دہشت گردی کے شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے ایک ڈوزیئر دکھایا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں ’بھارت کی جانب سے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینے کے شواہد موجود ہیں۔‘
اس کے بعد وزیر خارجہ نے پی فائیو کے ممالک (برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ) کے سفیروں کو اس حوالے سے بریفنگ اور ڈوزیئر بھی دیے۔ واضح رہے کہ ڈوزیئرر میں یہ درج ہے کہ مبینہ طور پر بھارت کے افغانستان میں عبدالواحد اور عبدالقادر نامی سفارت کار براہ راست دہشت گردوں سے رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے 66 کیمپ افغانستان میں قائم ہیں۔
ڈوزیئر کے مطابق بھارت کے سفارت خانے اور قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث ہیں اور بھارت کے افغانستان میں سفیر اور جلال آباد میں قونصلر نے مبینہ طور پر کالعدم ٹی ٹی پی اور کالعدم بلوچ تنظیموں سے مالی امداد پر براہ راست رابطے کیے اور بھارتی شہری منمیت کے ذریعے بھاری رقم ڈالر میں افغانستان منتقل کی۔
حکومت کے مطابق ڈوزیئر میں شواہد دیے گئے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے پہلے بھی استعمال ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔تاہم اس پیش رفت کے اگلے دن 15 نومبر کو افغانستان کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کا پاکستان کا الزام مسترد کرتے ہیں۔ ان تمام حالات میں وزیر اعظم کے ہمراہ پاکستانی انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ کا یہ دورہ اہمیت کا حامل ہے-
جمعرات، 19 نومبر 2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com