صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے گاؤں نکہ توت میں پیدا ہونے والے خادم حسین رضویؒ زندگی کی 55 بہاریں دیکھ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔شرمیلے اور سادہ خادم حسین کے والد کا نام حاجی لال خان تھا۔ انہوں نے دینہ اور جہلم کے مدارس سے حفظ اور تجوید کا کورس مکمل کیا۔ لاہور کے جامعہ نظامیہ میں داخلہ لے کر قرآن و حدیث کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ وہ شیخ الحدیث بھی تھے۔ محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب میں ملازمت اختیا ر کر لی۔ مولانا پیرمکی مسجد لاہور میں نماز جمعہ کا خطبہ دیتے تھے۔ ممتاز قادری کے واقعہ کے بعدانھیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
علامہ صاحب کے نام کے آخری حصے رضوی کی وجہ سے عام تاثر یہ تھا کہ وہ شیعہ ہیں لیکن انیسویں صدی کے بریلوی مسلک کے بانی احمد رضا خان بریلویؒ کے وہ بڑے پیرو کار تھے۔ علامہ صاحب کو اردو، پنجابی، فارسی اور عربی پر عبور حاصل تھا۔علامہ اقبالؒ کے اشعار سے بیان عشقِ رسول ﷺ کو جلا بخشنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ حضرت محمد ﷺسسے محبت کو اقبالؒ کے اشعار کے حوالے دے کرآسان اردواور پنجابی میں اس روانی سے بیان کرتے تھے کہ سننے والاگھنٹوں محو ہو کر علم وبیان کے موتی چنتا رہتا اور تاریخی حوالے آنکھوں کے سامنے تصویر ی شکل اختیار کیے جاتے تھے۔
علامہ خادم حسین رضویؒ اپنے آپ کو ختم نبوت اور پاکستان پینل کوڈ کے توہین رسالت کے قانون کے سیکشن295-C کا محافط سمجھتے تھے۔ 2016 کے بعد ملک میں جہاں بھی توہین رسالت کے قانون پر کوئی آنچ آئی یا کسی گستاخ رسول کو کسی شک کا فائدہ دے کر ریلیف دیا گیا تو تحریک لبیک نے فوراًآواز اُٹھائی اور بغیر کسی رکاوٹ کو خاطر میں لائے تحفظ ختم نبوت کے لئے قدم اٹھا لیا۔علامہ خادم حسین رضوی ؒکا یہ خاصہ تھا کہ ان کے مرید اور پیرو کار دیوانگی کی حد تک ان کے احکامات کو مانتے تھےاور عشق رسولﷺ کے نام پرایک آواز پرباہر نکل آتے تھے۔وہ اتنے پر جوش مقرر تھے کہ لمحوں میں اپنے سننے والوں کو متحرک کر لیتے تھے لیکن اپنے جوش خطابت میں کبھی مجمع کو انتشار کی طرف نہیں دھکیلتے تھے۔
علامہ صاحب کی گفتگو کو بعض حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ اپنے عام مخاطب کے ساتھ بسا اوقات بہت عامیانہ زبان استعمال کرتے تھے۔جسے مذہبی شائستگی سے بہت کم تر جانا جاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ عام پڑھے لکھے لوگ ان سے دور بھاگتے تھے اور ان کے عشق رسول اورحرمت رسول جیسے مقاصد کو سمجھ نہیں پاتے تھے۔
علامہ خادم حسین رضویؒ2016 میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے حق میں آواز اٹھانے نکلے۔ان کی پہلی ریلی مزار اقبالؒ پر تھی جس کی انتظامیہ سے اجازت نہیں لی گئی تھی۔ انتظامی ایکشن سے علامہ صاحب موضوع گفتگو بن گئے۔اسی سال کے اختتام پر جب ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی تو علامہ خادم حسین رضویؒ نے کچھ دوسری بریلوی تنظیموں کے ساتھ مل کر ڈی چوک میں چار دنوں کا دھرنا دیا۔ اس دھرنا میں تشدد کے واقعات سامنے آئے بعد ازاں یہ دھرنا کچھ مذہبی رہنماؤں کی مداخلت پر ختم کر دیا گیا۔
علامہ صاحب نے شان عظمت رسولﷺ کی جنگ سیاسی سطح پر لڑنے کے لیے اپنی پارٹی تحریک لبیک یا رسول اللہ الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹر ڈ کروائی اور حیران کن طور پر 2018 کی الیکشن میں مذہبی جماعتوں کو پڑنے والے کل ووٹوں کا64 فیصد وو ٹ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے حاصل کئے۔تحریک2,234,138 ووٹ لے کر پانچویں بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔یہی وجہ تھی کہ ان کا ہر جلسہ ایک بہت بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے کارکن عشق رسول ﷺ سے سرشار تھے اور ان کے ایک اشارے پر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے۔
اکتوبر2017 میں قومی اسمبلی میں حلف کی ایک شق جو ختم نبوت سے متعلق تھی کو جب اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد نے حذف کروایا تو علامہ خادم حسین رضوی ؒنے اسلام آباد میں 23 دنوں کا دھرنا دے کر حکومت کو نہ صرف شق بحال کرنے پر مجبور کیا بلکہ وزیر قانون کو بھی فارغ کروایا۔2018 میں آسیہ بی بی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف احتجاج پر انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ایک سال قید رکھا۔ان پر دہشت گردی اور حکومت کے خلاف اکسانے کے الزامات لگے۔2019 میں انھیں پچاس لاکھ روپےکے زر ضمانت پر رہا کیا گیا۔
قانون توہین رسا لت کے زبردست حامی خادم حسین رضویؒ کی آخری لڑائی بھی حبِ رسول ﷺکے لیے تھی۔ جاتے جاتے وہ اپنے ذمہ کا کام احسن طریقے سے کر گئے۔ حکومت وقت کو فرانس میں شائع ہونے والے خاکو ں پر وہ لائحہ عمل طے کرنے پر مجبور کر دیا جو ملکی سطح پر اس گستاخی کا کم از کم رد عمل ہو سکتا تھااور عشق رسول ﷺ کا اور اسلامی نظام کا دعویٰ کرنے والی کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کو اتنا پر جوش احتجاج کرنے اور فیصلہ کروانے کی توفیقْ نہیں ہوئی تھی۔اتنے برملا انداز میں عشق رسول ﷺ کا اظہار اور بے خوف ہر حاکم وقت کے سامنے ڈٹ جانا صرف ان ہی کا کمال تھا۔ اس حوالے سے ان کی پہچان بیرون ملک بھی تھی۔
علامہ خادم حسین رضویؒ سچے عاشق رسولﷺ تھے اور یہ عشق کی وہ اعلیٰ منزل ہے جس کا حق کوئی کوئی ادا کرکے ہی حقدار بنتا ہے۔علامہ صاحب، صاحب علم بھی تھے اور ایسی عظیم المرتبت شخصیت کی خدمت میں سوائے خراج عقیدت کے اور کچھ نہیں پیش کیا جا سکتا۔آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے یوں چلے جانے سے مذہبی حلقوں میں ایک وسیع خلا پیدا ہو گیا ہے لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ بندگانِ خدا تا دیر ان کے پر جوش بیانِ رسولﷺ سےایمان کی حرارت لیتے رہیں گے۔
دانیال فخر
(ادارہ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)
ہفتہ،21 نومبر2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com