واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکا جلد ہی اس خطے میں تجارت اور ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے افغانستان، پاکستان اور ازبکستان کے نمائندوں کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا اعلان کرے گا۔
اس اجلاس میں امریکا بھی شرکت کرے گا اور جنوبی اور وسط ایشیائی خطے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک فنڈ کا اجرا بھی کر رہا ہے۔
سفیر زلمے خلیل زاد افغانستان میں مفاہمت کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے نمائندہ خصوصی ہیں اور انہوں نے پاکستان کی حمایت سے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اس معاہدے پر فروری میں دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت مئی 2021 تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے اپنی بیشتر فوجیں اسی فریم ورک کے تحت واپس لانا چاہتی ہے لیکن اسے پینٹاگون کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جو غیر مشروط انخلا کا مخالف ہے۔
سفیر زلمے خلیل زاد نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ میں کہا کہ ہم جلد ہی علاقائی سرمایہ کاری فنڈ اور امریکا، ازبکستان، پاکستان اور افغانستان کے نمائندوں کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کا اعلان کرنے کے منتظر ہیں۔
اس ٹویٹ کے بعد جمعرات کو واشنگٹن میں ازبکستان کے وزیر خارجہ عبد العزیز کمیلوف سے ان کی ملاقات کے بعد اس اجلاس میں ازبک نمائندہ خصوصی عصمت اللہ ارگشیف نے بھی شرکت کی۔
سفیر زلمے خلیل زاد نے لکھا کہ ہم نے افغانستان امن مذاکرات کی موجودہ حیثیت اور تشدد میں فوری کمی کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے افغان امن عمل میں مدد کے لیے خطے کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا اور علاقائی معاشی رابطے، تجارت اور افغانستان میں امن کے ذریعے آنے والی ترقی کی افادیت پر بھی زور دیا۔
امریکی سفارت کار نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن سے وسط ایشیا، افغانستان اور پاکستان کو فائدہ پہنچائے گا۔
اس ہفتے کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان کابل تشریف لائے جہاں انہوں نے تشدد کو روکنے اور طالبان اور افغان افواج کے مابین جنگ بندی پر زور دینے کے لیے سب کچھ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کا کابل کا یہ پہلا دورہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے درمیان ہوا جس سے ستمبر میں دوحہ میں شروع ہونے والی افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات متاثر ہونے کا بھی خطرہ ہے۔
اگست میں پاکستان نے اسلام آباد میں اہم طالبان رہنماؤں کے ایک اجلاس کی میزبانی کی تھی اور ان پر زور دیا کہ وہ کئی دہائیوں کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کریں، اسلام آباد نے علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بین الافغان مذاکرات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
امریکی طالبان معاہدے میں بھی اس طرح کی بات چیت کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ علاقے سے افواج کے انلا کا انحصار ان مذاکرات کی کامیابی پر ہے۔
اگلے سال کے آغاز میں واشنگٹن میں نئی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے پر عمل درآمد چاہتی ہے۔
بائیڈن کی زیر سربراہی نئی امریکی انتظامیہ بھی فوجی دستوں کا افغانستان سے انخلا چاہتی ہے البتہ ٹرمپ کے برعکس وہ اس میں جلد بازی کے خواہشمند نہیں۔
منبع: ڈان نیوز