مشرق وسطیٰ اور اسرائیلی اخبارات میں پاکستان کی فوج کے خلاف یہ پروپیگنڈاکیا جا رہاہے کہ فوج جس کا پاکستان کی سیاست میں بہت مضبوط کردار ہے اور وہ سعودی عرب میں بھی متعدد آپریشنز میں شامل ہے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسا کرنے سے فوج کو امریکا اور انڈیا کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات کو چیلنج کرنے کا موقع ملے گااورپاکستان کے خلاف انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو بھی کاؤنٹر کیا جا سکے گا۔ اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ فوج جو حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے اگر چاہے تو یہ پشت پناہی ترک کر کے حکومت بدل بھی سکتی ہےتاکہ عمران خان کی رکاوٹ کو دور کیا جا سکے۔
کچھ عرصہ پہلے ا سرائیلی اخبار ہیرٹز نے کچھ پاکستانی اینکرز کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر کھل کربات کیوں نہیں کر سکتے؟ پاکستان کے دو معروف سینئر اینکرز کامران خان اور مبشر لقمان کے حوالے سے بات سامن آئی تھی اور ان کے ٹوئٹیس کا حوالہ دیا گیا تھا۔یہ کہا جارہا تھا کہ سینئر صحافیوں کی جانب سے اس طرح کے ریمارکس دراصل رائے عامہ کو تیار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایسا ہی ایک حوالہ اینکر عمران ریاض خان کو دئیے گئے انٹرویو کا بھی ہے جو اوائل نومبر میں لیا گیا اور جس میں وزیر اعظم عمران خان نے اس ملک کا نام لینے سے گریز کیا جس کی جانب سے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے زور ڈالا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اینکر کے اصرار پر کہا :’’ میں کوئی نام نہیں لینا چاہتا آپ آگے چلیں‘‘۔ اسرائیلی میڈیا اس جواب کو ایک تائیدی جواب بنا کر پیش کر رہا ہے۔ عالمی میڈیا نے 2015 میں جنرل مشرف کے دور میں بھی ایسی ہی ایک کوشش کی تھی جب استنبول میں اسرائیل اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے ملاقات کو بہت اچھالا گیاتھا۔ جسے بعد میں جنرل مشرف نے ایک ڈپلومیٹک کوشش قرار دیا تھا جو پاکستان نے اسرائیل کے سامنے فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے کی تھی۔ اس وقت بھی جنرل مشرف کا یہی کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا براہ راست کوئی جھگڑا نہیں لیکن فلسطینی ریاست کے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کا اس پر آج بھی یہی مؤقف ہے۔اس اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا گویا جموں و کشمیر کے مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے اور اپنی شہ رگ بھارت کے حوالے کرنا ہے۔
اگر واقعات کے تسلسل کو دیکھا جائے تو پچھلے دو سال میں امریکا کے بھارت کے ساتھ بڑے دفاعی معاہدے کرنا، انڈیا کا جموں و کشمیر کو ضم کرنا،اس کے فوراً بعد مسلم ممالک کا کشمیر کاز پر رسمی رویہ اپنانا،سعودی عرب کا پاکستان سے ہاتھ کھینچ کر انڈیا پر کرم نواز ی کرنا اور مسلم ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنا سب کڑیا ں آپس میں ملتی جاتی ہیں جن کا اصل مقصد امریکا،اسرائیل بھارت اور دیگر اتحادیوں کوایک طاقت بنا کر مسلم ممالک کو کمزور کرنا ہے۔ترکی،ایران،ملائیشیا اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جو اس دائرہ اثر میں نہیں آنا چاہتے۔پاکستان کو دہشت گردی اور اندرونی سازشوں جبکہ ایران کو سعودی عرب،اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسلم ممالک کی طرف سے پاکستانیوں کے ویزے پر پابندیاں معاشی مشکلات بڑھانے کے برابر ہے۔جو منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو جھکانے کے لیے استعمال کی جارہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اگر ایران بھی اٹیمی ہتھیار بنا لیتا ہے تو اسرائیل کی خطے میں برتری ختم ہو جائے گی جو نئے ورلڈ آرڈر کے پرانے کھلاڑیوں کو قبول نہیں۔
اسلامی دنیا میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی راہ کی بڑی رکاوٹ پاکستان ہے۔یہ بات اسرائیل جانتا ہے اور اسے اپنے حواریوں کی ایما پر یہ بات کھٹکتی بھی بہت ہےجب یو اے ای نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو باقی اسلامی ممالک کی طرف سے مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگلے مرحلے میں بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا اب عمان کا نام بھی آ رہا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی جہاز سعودی عرب کی فضا میں پرواز کرنے لگے ہیں اور خبر گرم ہے کہ جلد ہی سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔
اونٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت کینہ پرور جانور ہے اور کسی سے دشمنی کو سالوں نہیں بھلاتا۔یہ کہاوت اس وقت محمد بن سلمان پر صادق آتی ہے۔ محمد بن سلمان کی ایما پر ایران دشمنی میں سعودی عرب اس حد تک آگے چلا گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے ایران کی اٹیمی تنصیبات پر حملے کے مذموم ارادے کا شریک بن رہا ہے۔سعودی زمین پر اسرائیلی وزیر اعظم آرہا ہے اور تیل تنصیبات پر حوثی حملوں کو بھی ایران سے جوڑا جا رہاہے۔تاکہ اس جنگ میں سعودی عرب کو پوری طرح گھسیٹا جائے۔ یمن کے بعد ایران کا نیا محاذ مسلم امہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بننے جا رہا ہے۔ چونکہ پاکستان کی فوج سعودی دفاع میں اہم کردار اداکر رہی ہے پاکستان کے لیے بدلتے حالات سے لاتعلقی ممکن نہیں۔
اسرئیل کو تسلیم کرنے پروزیر اعظم پاکستان برملا قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اصولی مؤقف کی پیروی کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں وزیر اعظم واضح کرچکے ہیں اگر ساری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے گی تو بھی فلسطینوں کے حقوق دلائے بغیر پاکستان ایسا نہیں کرے گا۔ اصولی مؤقف کے علاوہ پاکستان میں موجود مذہبی قوتیں بھی عمران خان کے ایسے کسی فیصلے کی حمایت نہیں کریں گی۔ موجودہ حالات میں جب بڑی مذہبی جماعتیں عمران خان کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہیں ایسا کوئی خیال حا لات کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ملک کی سیاست میں فوج کے خلاف جو سازش چل رہی ہے اورجسے انڈیا اور اسرائیل کا میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے شاید ایران کی طرح پاکستان کوبھی مستقبل کا نیا میدان جنگ بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
بدھ،25 نومبر 2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com