پاکستان کے سابق وزیر خزانہ نے بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں اینکر کی تمام تر الزام تراشیوں کے باوجود اپنے خزانوں کی ہوا نہیں لگنے دی۔منشی کی نوکری سے چھ ملین یو ایس ڈالرز کی ملکیت رکھنے والے اسحاق ڈار نے بلا خوف و خطر عالمی میڈیا پر اعتراف کیا کہ ان کی توsole،واحد جائیداد لاہور کا ایک گھر ہے جو ان کی بیگم صاحبہ کے مطابق ایک تحفہ دیا گیا ہے۔ تمام ٹیکس ریٹرن کلئیر ہیں۔ اور لندن میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں جن کا ایک ولا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے بچے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور انڈیپنڈنٹ ہیں۔ سو میں تو ڈیپنڈنٹ ہوں ان کے ساتھ رہتا ہوں۔ اب بی بی سی پاکستانی میڈیا تو ہے نہیں کہ جی اچھاکہہ کر سوال آگے بڑھا دیتا۔اینکر نے نپے تلے چند لفظوں میں پان پت اتار کر ہاتھ میں پکڑا دی اور اسحق صاحب منہ سے پسینہ صاف کرتے رہ گئے۔
بی بی سی پر ہارڈ ٹاک نے چند منٹوں کا انٹرویو اسحق ڈار کے لیے بہت ہارڈ کر دیا۔ اتنے صاف ستھرے مالی ریکارڈ ہونے کے باوجودآپ پاکستانی عدالت کو مطلوب ہیں۔ پاکستان جا کر عدالت کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟بتایا کہ تین سال سے میں بیمار ہوں مجھے cervical کا مسئلہ ہے۔ اینکر نے پوچھ لیا کیا لندن میں تین سال گزارنے کے بعد اب بھی آپ کو مسئلہ ہے؟ تو سادگی سے جواب دیا ہا ں اب بھی یہی مسئلہ ہے!!
کائیاں مگر معصوم پیش ہوتے انسانی حقوق کے علم بردار اسحق ڈار نے مظلومیت ثابت کرنے کے لیے نیب کے زیر حراست درجنوں لوگوں کے مرنے کی خبر بھی عالمی میڈیا پر شیئر کر دی۔انہوں نے بتایا کہ میں اور نواز شریف تو ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے کام کر رہے تھے کہ نیب نے ہمیں دھر لیا اور ایسی جے آئی ٹی بنائی جس میں دو فوجی افسر کام کر رہے تھے۔کیونکہ موجودہ حکومت ڈکٹیٹر شپ جیسی ہے۔کیونکہ یہ ایک چوری شدہ مینڈیٹ پر بنی حکومت ہے۔اینکر نے بصد احترام عرض کیا کہ جناب تمام عالمی مبصرین کے نزدیک چند جھگڑوں کے علاوہ یہ انتہائی جینوئن الیکشن تھے۔اسحاق صاحب اڑ گئے کہ آپ نے تمام رپورٹس نہیں پڑھیں۔تو انھیں واضح کیا گیا کہ آپ نے غیرجانبدار مبصرین کے بجائے اپنی مرضی کی منفی رپورٹنگ پر مخالفت کی بنیاد کھڑی کر رکھی ہے
اسحاق ڈار صاحب نے پاکستان میں ڈیپ سٹیٹ پر ہیلری کلنٹن کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی آرمی کو موجودہ حالات کا ذمے دارٹہرایااور پھر اینکر کے بدلتے تیور دیکھ کر جلدی سے افراد پر آگئے کہ مخصوص آرمی پرسنل کی بات کر ڈالی۔جس پر اینکر نے جنرل آصف جاوید باجوہ کا نام لیکر وضاحت چاہی تواسحاق ڈار صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔غرض انٹرویوکیا تھا تضادات کا ایک مجموعہ تھاجس میں ان کی بوکھلاہٹ لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی۔
لگتا ہے اس انٹرویو کے لیے اسحاق ڈار استعمال ہو گئے اور وہ اکثر نواز شریف کے لیے استعمال ہوتے رہتے ہیں۔جب سے نواز شریف بیماری کی آڑ میں لندن مقیم ہوئے ہیں اور طویل ہوتے قیام نے سوالات اٹھانے شروع کیے تو عالمی میڈیا ان سے انٹرویو کرنا چاہتا ہے۔پی ڈی ایم کی تحریک میں نواز شریف کی دھواں دار انٹری اور استقامت نے بیماری اور قیام دونوں پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ دنیا کی طاقتور اور بااثر فوج کے چیف کو للکارنا اور آئی ایس آئی کی قوت پر الزام تراشی نے بیرون ملک بے شمار سجنون اور دشمنوں کے کان کھڑے کیے ہیں۔بی بی سی کا اس انٹرویو کے لیے دباؤ تھازیادہ انکا ر پر بی بی سی نواز شریف کے لندن قیام پر کوئی پروگرام کر سکتا تھا۔چنانچہ انٹرویو دیا گیا ہے اور اس انٹرویو سے دنیا کے سامنے ن لیگ کی سیاسی قیادت کے گن خوب کھلے ہیں۔
حکومت پاکستان نے نواز شریف کو برطانیہ سے ڈی پورٹ کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے اس طرح کے انٹرویو اس کے لیے خود برطانیہ میں پبلک پریشر بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔جہاں این جی اوز اور حکومتی حلقے برطانیہ کو دنیا کے کرپٹ حکمرانوں کی جنت بنانے کا حق میں نہیں کیونکہ ایسا کرنا خود برطانوی مہذب کلچر کی اقدار کے خلاف ہو گا۔نواز شریف کے ساتھ ساتھ ایسے وفاداروں کی سیاسی پناہ گاہوں کے لیے بھی عالمی سطح پر قانون بنانے کی اشدضرورت ہے۔