کرونا جیسی عالمی وبا کی وجہ سے اس غربت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے کہ جیسا ورلڈ بنک کے صدر ڈیوڈمالپس کے کہنا ہے کہ ” اس وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں کساد بازاری کا خدشہ ہے جس سے دنیا کی کل آبادی کا 4۔1فیصدانتہائی غربت کا شکارہوسکتا ہے۔ ان اعدادوشمارسےاندازہ ہوتا ہےکہ غربت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جسکا پوری دنیا کو سامنا ہے اور جوں جوں آبادی میںاضافہ ہوتا جار ہا ہے یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا جائے گا۔
اگرچہ غربت کو ختم کرنےکے لیے مختلف ادارے کوششیں کر رہےہیں ہم اس آرٹیکل میں غربت کو مذہب کی رو سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس ضمن میں ہم قرآنی آیات اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اوران کے اہل بیت علیہ السلام کی روایت سے مدد لیں گے۔
جب کوئی مجموعی طورپراسلامی کتب کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ غربت کے تصورکےبارے میں دو متضاد نظریے پاتا ہے۔ روایات کا دھڑاروحانیت کے حصول میں مفلسی کےکردار کی تعریف کرتا ہے جبکہ روایات کا دوسرا دھڑا اس کی خوفناکی کےبارےمیں خبردارکرتا ہے۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے مفلسی کے حوالے روایات کے کس دھڑےکو معتبر ٹھہرایاجائے؟ جب یہ بات طے ہوجائے گی تو تبھی غربت کے حوالے ایک مکمل اور درست تصویرہمارےسامنے آ سکتی ہے۔ بصورت دیگر مفلسی پرروایات کے صرف ایک دھڑے کو مستند جان لینا اوردوسرے کو یکسرنظر انداز کر دینا ہمیں درست تجزیے تک نہیں پہنچا سکتا۔
دوسرا حوالہ جس میں غربت کی بہترقراردیاگیا ہے وہ انسان کو تقویٰ پرابھارنے کی وجہ سے ہے۔ یہاں یہ باتاپ واضح رہے کہ تقویٰ سے مرادہرگز یہ نہیں ہے کہ ز ہد کو استعمال کرتے ہوئے ہر چیز کو ترک کردیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اپنے اندر سے مادہ پرستی کی محبت کو کھرچ دیں اور دنیاوی اور دنیا کی عارضی چیزوں اور خواہشوں کے ساتھ دل کو نہ لگائیں اور خاص طورپرایسے میں جب دنیاوی چیزوں کی محبت اللہ کی عبادات اور آپ کی اسلامی ذمہ داریوں کے آڑے آ رہی ہو۔
اس حوالے سےہم دیکھتےہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا” غربت سکون ہے اورفراوانی سزا۔ غربت سے سکون تبھی حاصل ہو پاتاہےجب انسان اپنے دل سےمادیت پرستی کو مکمل طورپرنکال دے۔ دوسرے زوایے سے اگردیکھاجائےتوہم یہ اسلام میں یہ روایت بھی دیکھتے ہیں کہ اصلی دولت روحانی بالیدگی ہے۔ مثال کےطورپر حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک موقعے پرفرمایا” امارات چیزوں کی فروانی اورملکیت سے نہیں آتی بلکہ یہ انسان کےاندرکی دولت سے آتی ہے”
روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ امام موسٰی الکاظم علیہ السلام کا مشہور ساتھی بہلول خلیفہ ہارون الرشید کے پاس گیا اوراسےایک پراناسکہ دیا۔ جب ہارون الرشید نےبہلول سے اس سکے کی بابت پوچھاتواس نے جواب دیا” میں نے عہدکیا تھا کہ اگر میرا ایک مسئلہ حل ہو گیا تو میں یہ سکہ کسی غریب آدمی کو دوں گا اور بہت تلاش وبسیارکے باوجود مجھے آپ سے زیادہ غریب کوئی بھی نہیں ملا۔ اگرچہ ہارون الرشید خلیفہ تھا اور بے بہا مال و دولت کا مالک تھا تاہم بہلول نے اسے سبق دیاکہ اصلی دولت روحانی دولت ہے اوراصل غربت روح کی غربت ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غربت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کو نہ صرف دنیاوی معاملات کے لیے حل کرنا ضروری ہے بلکہ دنیا کی روحانی نشو نما کے لیے بھی ضروی ہے۔ اپنے بیٹے محمد ال حنفیہ سے بات کرتے ہوئے امام علی علیہ السلام نے فرمایا” اے میرے بیٹے، مجھے فکرہےکہ تمہیں غربت نہ آن گھیرےاس لیےاللہ سے اس کی پناہ مانگو کیونکہ غربت انسان سے اس کا ایمان چھین لیتی ہے، اس کی قوت فیصلہ کو متاثر کرتی ہے اوراس کے دل میں دوسروں کے لیے نفرت پیدا کرتی ہے۔