مشرق وسطی کے ایک چھوٹے سے ملک قطر کا اس کے پڑوسی ممالک سعودی عرب ، بحرین اور عرب امارات نے بائیکاٹ کیا ان عرب ممالک کی پشت پناہی مصر بھی کررہا تھا۔ سعودی عرب اور عرب امارات نے قطرپر الزام عائد کیا کہ اسکےایران کےساتھ تعلقات ہیں اوروہ اخوان المسلمین کی پشت پناہی بھی کرتا ہے۔ اوراس بات سے ان کی بادشاہتوں کو شدید خطرہ ہے۔
تاہم تین سال بعد ہی قطرمخالف اتحاد میں اس وقت دراڑیں نظر آئیں جب سعودی عرب نے عرب امارات کی مخالفت کےباوجود قطر کی ناکہ بندی ختم کرنےکا اعلان کیا۔ لیبیا سے یمن تک ابو ظہبی پورے مشرق وسطی میں جنگجو ذہنیت رکھتا ہے اور بہت سارے ظالمانہ کاموں میں سعودی عرب کا خاص اتحادی ہے۔ مشرق وسطی کے ماہر اورقطر میں ترکی کے سابق سفیرمتھاٹ رینڈی کےمطابق عرب امارات سعودی عرب کے ساتھ مقابلےسے ہرگز نہیں ہچکچاتا اوربعض معاملات میں وہ سعودی عرب سے آگے نکلنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔
رینڈی کا کہنا ہے کہ عرب امارات نےنہ صرف لیبیا میں ترکی حمایت یافتہ فورسز پرحملے کےلیے نہ صرف اپنے جنگی طیارےبھیجے بلکہ لاکھوں ڈالرکااسلحہ بھی خریدا۔ عرب امارات نے یونان کےساتھ مشترکہ آپریشن میں اپنے جنگی جہاز بھیجےاور فرانس کے ساتھ تعاون بھی کیا۔ رینڈی کا کہنا تھا کہ عرب امارات خطےمیں قائدانہ کردار اختیار کرنا چاہتاہےاورایسے ٹاسکس بھی قبول کر رہاہےجواس کی بساط سےباہرہیں۔ جسکی وجہ سےان کے اورسعودی عرب کےمابین تھوڑی سا تناؤ پیدا ہوا کیونکہ عرب امارات سعودیہ کی باتوں پرزیادہ دھیان نہیں دیتا۔
قطریونیورسٹی میں گلف سٹڈی سنٹر کے بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیسر بلنٹ اراس کے خیال میں دوحا کی ناکہ بندی کرنے کا ایک مقصدخطے میں سعودی عرب اور عرب امارات کے مابین برتری حاصل کرنے کی دوڑتھی جس کی پشت پناہی مصر کررہا تھا۔ تاہم سعودی عرب کے اندر اب یہ سوال اٹھ رہا ہےکہ عرب امارات کے ساتھ سیاسی مقابلے کا فائدہ کیا ہے؟ جس سے سعودی عرب اور عرب امارات کے مابین اختلافات کا اندازہ ہوتا ہے۔
رینڈی کے مطابق اس کے نتیجے میں امریکہ اورکویت اور اس ناکہ بندی کے مخالف ایک ملک کی سربراہی میں سعودی عرب اورقطر کے مابین تنازع کے خاتمے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی کا آغاز ہوا۔ رینڈی کاکہنا ہے کہ کئی مہینے قبل سےوہ اسطرح کےمفاہمتی عمل کی توقع کررہے تھے۔میرے خیال میں امریکہ اور دیگرقوتوں کی کوششوں سے مرحلہ وار یہ عمل طے پا جائےگا۔
وائٹ ہاؤس میں سینیر ایڈوائزر اور امریکی صدرکے داماد جیرڈ کشنرکے مشرق وسطی کےحالیہ دورہ کے دوران بیک ڈورڈپلومیسی سیمی آفیشل درجے تک پہنچ گئی تھی۔ ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران سعودی وزیرخارجہ پرنس فیصل بن فرحان السعود کا کہنا تھا کہ ہم نے کویت کی مددسے گزشتہ چند ماہ میں قطرکےمعاملےمیں بہت سارےآگے بڑھ گئےہیں اوران کاوشوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مددکےہم خصوصی شکرگزارہیں۔ دوسری جانب دوحہ نے بھی مشرق وسطی میں ہونے والی اس نئی پراگریس کا اعتراف کیا ہے۔
قطرکی وزارت خارجہ کے ترجمان لولوا ال خاطر کا کہنا تھا کہ ہم بہت تعمری مثبت اورخلوص سے مشرق وسطی کےلوگوں کے مفادات میں اپنی بات چیت کو آگے بڑھا رہےہیں۔ قطر کے ساتھ تعلقات کی دوبارہ بحالی کا آغاز شہریوں کے مابین تعلقات کی بحالی اوران کی زمینی ناکہ بندی اٹھانے سے شروع کی جائے گی۔ امریکہ کے فیصلوں کو گلف میں حتمی حیثیت حاصل ہے۔ اور مشرق وسطی کی کوئی طاقت امریکہ کی خواہشات کے نہیں جا سکتی اورواشنگٹن اس جھگڑےکوختم کرناچاہتا ہے۔
عرب اسرائیل تعلقات کی بحالی
رینڈی کے مطابق امریکہ دووجوہات کی وجہ سے قطراور گلف ممالک کے مابین یہ تناؤ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس میں پہلی وجہ ایران کے خلاف مشترکہ اتحاد بنانا ہے اور قطر کے ایران کے ساتھ بہترین سفارتی تعلقات ہیں اورجغرافیائی طورپربھی ایران کے ساتھ اس کی حدود مشترکہ ہے اس لیے اس کی گلف اتحاد میں واپسی انتہائی ضروری ہے۔
قطرکی ناکہ بندی کے بعدایراناورقطرکے تعلقات میں مزیداضافہ ہوا اور امریکی پابندیوں کے باوجود اس کے زرمبادلہ میں اضافہ ہوا۔ اورڈونلڈ ٹرمپ کویہ بات کسی صورت قابل قبول نہیں ۔ ایران کو مزید تنہا کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ قطر کی اس اتحاد میں واپسی چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہےکہ ٹرمپ انتظامیہ عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کےلیے دباؤ میں لانا چاہتی ہے۔ واشنگٹن عرب امارات ،بحرین اوراسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو پورےمشرق وسطی تک وسعت دینا چاہتا ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک کے مابین تناؤ اور اسرائیل کےساتھ تعلقات کی بحالی کے درمیان ایک تعلق ہے۔
آراس کے مطابق بائیڈنکے اقتدار میں آنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ مشرق وسطی کے اندرسے تناؤ ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ سعودی عرب اسرائیل کےساتھ اپنے تعلقات کوبحال کرلے۔ کشنر جو کہ ایک کٹٹرامریکی یہودی ہیں اور صیہونیت کے محافظ ہیں وہ بھی مشرق وسطی اور اسرائیل کےمابین تعلقات کی بحالی کےاہم کردار ہیں۔ انہوں نے بھی حال ہی میں قطراورکےپڑوسیوں کےمابین تناؤ کے خاتمے کے لیے مشرق وسطی کا دورہ کیا ہے۔
دلچسپ امریہ ہےکہ قطرمشرق وسطٰی میں امریکی مفادات کا محافظ ہے اس لیے اس کوطویل عرصے تک امریکہ تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ اس وقت بھی قریبًا 10000 امریکی فوجی قطر میں موجود ہیں۔ امریکی فوجیوں کےعلاوہ امریکہ قطر کے معاشی مفادات کا بھی محافظ ہے۔ ایکسون موبل اور دیگرتوانائی کی بڑی بڑی فرمزقطر میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔
کشنر اس معاملے کو بائیڈن انتظامیہ پرنہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس میں کشنر کے اپنے مفادات بھی شامل ہیں اور وہ مشرق وسطی میں بائیڈن کا رستہ روکنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں مائیک پومپیو کا مشرق وسطٰی کا حالیہ دورہ بھی قابل ذکر ہے۔ یہ واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جنوری 2020 تک اپنی پالیسیوں کا نامکمل نہیں چھوڑنا چاہتے۔
پیر،14دسمبر 2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com