سال 2021 بہت سارے مسائل کا شکار تحریک ا نصاف کی حکومت کے لیے شاید کوئی اچھی امید لے کر آئے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم 2020 میں تحریک انصاف نے کچھ ایسے چیلنجز سے آسانی سے نمٹ لیا تھا جیسا کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بہترین طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔ مزید بر آں اس برس معیشت بھی چند تجربہ کار ہاتھوں میں ہے اور اس میں بہتری کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ گزشتہ برس اپوزیشن بھی بکھری ہوئی اور اختلافات کا شکار تھی اور فوج کی حمایت بھی خان صاحب کے ساتھ تھی۔ تاہم کرونا کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا مین چیزیں بڑی تیزی سے تبدیل ہوئیں۔ چند مہینوں میں یہ بات واضح ہو گئی کہ کرونا دنیا کی معیشت ، بین الاقوامی تجارت اور نیو ورلڈ آرڈر کے میکانزم کے تحت چلنے والے حکومتی نظاموں کو یکسر تبدیل کرنے والا ہے اور پاکستان اس تبدیلی سے ہر گز بالا نہیں تھا۔
کرونا وبا نے جہاں دنیا کے دیگر ممالک کے صحت کے نظام کی قلعی کھول دی وہیں پاکستان کا نظام صحت کا پول بھی سب کے سامنے کھول دیا۔ مزید اس وبا نے اٹھارہویں ترمیم کے بعد پاکستان کے فیصلہ سازی کے نظام کو بھی ننگاکر کہ رکھ دیا۔ وبا کے پھیلاؤ کے بعد پہلا چلینج اس کے پھیلاو پر قابو پانا تھا۔ اس چیلنج کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ نے جزوی لاک ڈاون، گنجان آباد شہر کراچی میں ایمرجنسی صورتحال کی تیاری اور مرکز پر ایک متفقہ قومی پالیسی بنانے پر زور دینے جیسے کام کیے۔ تحریک انصاف کی حکومت عوامی رد عمل اور معاشی نتائج کی وجہ سے اسلام آباد میں لاک ڈاون کے نفاذ میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہ تھی۔ وزیر اعظم نے اس حوالے سے بہت سارے بیانات بھی دیے لیکن تحریک انصاف کے وزرا اور مشیروں نے اس اہم بحث کو سیاسی بنا لیا اور حکومت سندھ پر بے جا تنقید شروع کر دی حالانکہ سندھ وہ واحد صوبہ تھا جس کے اقدامات کی تعریف میڈیا نے بھی۔
تحریک انصاف نے کرونا کے حوالے سے اپنی سابقہ پالیسی کو تبدیل کیا اور مختلف شہروں میں سمارٹ لاک ڈاون نافذ کیا۔ کرونا کے حوالے سے مختلف آرآ اور عوامی رد عمل کے نتیجے میں اپریل 2019 میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سنٹر کا کام قومی کور کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ تھا۔ اس کمیٹی میں صوبائی حکومتوں کے نمائندے اور دیگر اہم عہدیداران شامل تھے جس کا مقصد تمام سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومتوں کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ این سی او سی کا قیام بذات خود ایک سوال تھا کیونکہ اس حوالے سے بہت سارے ادارے پہلے سے موجود تھے تاہم ان کو جان بوجھ کر غیر متحرک اور ناقابل عمل رکھا گیا تھا۔ایسے ایک ادارے کا نام مشترکہ مفادات کونسل ہے جس کا بنیادی مقصد صوبوں اور وفاق کے مابین اہم پالیسی معاملات پر ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ این سی او سی کی تمام شاخوں کو فوجی افسران ہی چلا رہے ہیں ما سوائے اس ادارے کے ترجمان کے جو کہ وفاقی حکومت کا نمائندہ ہے۔ تاہم یہ سوال ابھی تک باقی ہے کہ کیا این سی او سی اس معیار کا کام کر رہی ہے جس کی ملک اور شہریوں کو ضرورت ہے؟
خوش قسمتی سے پاکستان میں کرونا کی پہلی لہر میں دیگر ممالک جیسا کہ ایران وغیرہ کی نسبت اموات کی شرح بہت کم رہی۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ اس امیونٹی کی وجہ کیا تھی۔تاہم وفاقی حکومت کے بعض اقدامات اس ضمن میں سود مند ثابت ہوئے۔جیسا کہ سمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی، سکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی بندش کے علاوہ عوامی اجتماعات اور شادی ہالز پر پابندی وغیرہ۔ اگرچہ بی بی سی نے کرونا کی اموات کی حوالے سے پاکستان کے اعدادو شمار پر سوال اٹھائے تاہم یہ معمولی بات تھی۔مجموعی طور پر دنیا نے پاکستانی اقدامات کی تعریف کی جس کا کریڈ ٹ لینے میں وفاقی حکومت نے دیر نہیں لگائی۔ ایک ایسی حکومت جو مسلسل تنقید کی ذد میں تھی اس کے لیے یہ ایک بڑی اچیومنٹ تھی۔
سال 2020 میں معاشی چیلنجز
اگرچہ حکومت نے کرونا پر کافی حد تک قابو پا لیا تاہم معیشت ان کے ہاتھوں سے پھسلتی گئی۔2019 میں ہہ معیشت کا کریا کرم ہو چکا تھا تاہم کرونا نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی اشیائے ضرویہ خاص طور پر خوراک اور روز مرہ کی چیزوں کی کمی نے تحریک انصاف کو شرمندگی سے دوچار کر دیا۔ اگرچہ عمران خان کا نعرہ شفافیت اور بدعنوانی کے خلاف جنگ تھا تاہم شوگر مافیا کے سامنے حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ اور عوام کو مہنگے داموں چینی خریدنا پڑی۔ تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے باوجود کہ کس طرح شوگر مافیا دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے حکومت اس کے خلاف ایکشن لینے میں ناکام دکھائی دی۔
چینی کے بعد دوسرا بڑا سکینڈل مہنگے داموں گندم کی فروخت تھا۔ حکومت نے پہلے تو گندم برآمد کی اجازت دے دی جس سے ملک بھر میں آٹے کا بحران پیدا ہو گیا جس پر گندم کو مہنگے داموں در آمد کرنا پڑا۔ ان دونوں سکینڈلز کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان آ گیا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ برس جنوری میں افراط زر کی شرھ 7۔23فیصد تھی جبکہ 2011 سے 2020 تک اس کی شرح کبھی 33۔6سے اوپر نہیں گئی تھی اور بدقسمتی سے یہ صورتحال سارا سال چلتی رہی۔
احتساب کا سلسلہ
حکومت کے احتساب کے نعرے کو جس پر ان کو اقتدار ملا تھا اس وقت سخت دھچکا لگا جب اعلی عدلیہ نے نیب کے طریقہ کار سخت تنقید کی۔ جولائی میں دو ممبر بنچ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ نیب سیاسی انجینرنگ کا ذریعہ ہے اس لیے اس کی کریڈبیلٹی پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں ۔اپوزیشن جماعت کے سربراہ اور ان کے بھائی کےکیس پر اعلی عدلیہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسا لگتا ہے نیب صرف یکطرفہ طور پر احتساب کر رہی ہے اور حکومتی کیمپوں میں موجود بدعنوان عناصر پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔
اس موقع پر عدالت نے حکومت کو یاد دہانی بھی کرائی کہ انصاف کے نظام پر کا یقین تبھی قائم رہتا ہے جب تک وہ ایمانداری، غیر جانبداری اور انصاف سے کام لے ۔ تاہم عدالت کی اس یقین دہان کا حکومت پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا اور اپوزیشن رہنما شہباز شریف کو نیب کی جانب سے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اور اس سے قبل انسداد دہشت گردی کا ادارہ اپوزیشن کے پنجاب اسمبلی میں ایک اہم رہنما پر ہاتھ ڈال چکا تھا۔ تاہم حکومتی عہدیداران کے خلاف نہ ہونے کے برابر بلکہ سرے سے ان کی کرپشن پر کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔ مثال کے طور پر پشار بی آرٹی کیس پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی، بلکہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ ایف آئی اے کو اس تحقیق سے روکے۔ اگر کہا جائے کہ اس منتخب احتساب کی سب سے بڑی مثال کیا ہے تو وہ فارن فنڈنگ کیس ہے جو کہ الیکشن کمیشن کے سامنے زیر التوا پڑا ہے ۔ تحریک انصاف کے خلاف سنگین الزامات عائد ہیں مگر کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے احتساب کے نعرے کو سخت دھچکا لگا۔
اپوزیشن کا اتحاد
معاشی بدحالی اور بلند افراط زر کی وجہ سے حکومت پر عوام کی شدید تنقید سے اپوزیشن جماعتوں کو ایک مثالی فضا ملی اور اس نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے لیے ایکا کر لیا۔ گزشتہ برس سیاست کی سب سے بڑی ڈویلپمنٹ پاکستان جمہوری اتحاد کا قیام تھا جو کہ پاکستان کے سیاسی مستقبل میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے والی تھی۔ پاکستان جمہوری تحریک گیارہ جماعتوں کا اتحاد تھا جس میں مرکرز، بائیں بازو اور دائیں بازو کی سبھی جماعتیں اکٹھی ہیں اور اس اتحاد کی قیات جمیعت علمائے اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں۔ اگرچہ علمائے اسلام ف کی اپنی بھی افرادی قوت موجود ہے تاہم مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے مل کر اس کے پہلے سے بھی زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔
اکتوبر اور دسمبر کے درمیان پاکستان جمہوری تحریک نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں کامیاب جلسے کیے اور حکومت کو تنقید کا نشان بنایا۔ تاہم اس اتحاد میں ایک اختلاف مقتدرہ پر تنقید پر بھی تھا۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے لندن سے اپنی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا سہرا بھی اسٹیبلشمنٹ کے سر باندھ دیا۔ میاں نواز شریف نے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم بھی کہا ۔ جمہوری تحریک کا سب سےبڑا مسئلہ اندرنی نا اتفاقی ہے ۔ ہر جماعت کے اپنے اپنے مفادات ہیں اسی لیے نئے سال کے آغاز پر ابھی تک یہ بات طے نہیں ہے کہ کیا وہ ایک متفقہ پالیسی بنا کر بامقصد تبدیلی لا سکتے ہیں؟ مولانا فضل الرحمان عمران حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں تاہم پیپلز پارٹی کو یہ فکر ہے کہ اس کا نام احتساب والی فہرست سےنکالا جائے جبکہ مسلم لیگ ن طاقت کے اشتراک کے لیے منتحب اور غیر منتخب اداروں کے مابین ایک منظم ترتیب چاہتی ہے۔
نئے سال کے ابتدائی ماہ اس بات کی وضاحت کریں گے کہ اس سیاسی تحریک کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر کے آخری دنوں میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین سمجھی جانے والی ایک شخصیت نے میاں نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف سے جیل میں ملاقات کی اور بات چیت کی آفر دی تاہم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے مذاکرات کے عمل کو مکمل طور پر رد کردیا۔ اسی شخصیت نے مولانا فضل الرحمان سے بھی الگ ملاقات کی اور یہی آفر دی تاہم مولانا صاحب کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کے استعفی سے کم کسی چیز پر مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان جمہوری تحریک نے اسلام آباد کی طرف مارچ کی دھمکی کے علاوہ اسمبلیوں سے اپنے استعفی دینے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ اس ساری تحریک میں مریم نواز ایک مشہور سیاسی رہنما کے طور پر ابھری ہیں تاہم ان کا سیاسی رستہ نہ تو آسان ہے اور نہ ہی واضح کیونکہ ابھی تک پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ ان کے قابو میں نہیں ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا سٹار ہونا یا ایک اعلی پائے کا مقرر ہونا الگ بات ہے۔ مریم نواز کی صلاحیتوں کا اصل ٹیسٹ 2021 میں ہوگا جب پی ڈی ایم حکومت سے مکمل ٹکراؤ کا آپشن اختیار کرے گی۔
2021کا منظر نامہ
سیاسی مسائل، مہنگائی ، افراط زر اور معیشت کی دگوں حالت ایسے بڑے چیلنجز ہیں جن کا سامن حکومت کو اگلے سال ہونے والا ہے۔ اس کے اگلے سال کا منظرنامہ کچھ یوں ہوسکتاہے۔
اول، پاکستان جمہوری تحریک اپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ٹوٹ سکتی ہے۔ جس سے اس حکومت کے بچ جانے کے امکانات بڑھ جائین گے تاہم اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کی ناکامی اسٹیبلشمنٹ کو پالیسی معاملات میں مزید بااختیار بنا دے گی۔ یہ صورتحال بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی 2014 میں نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان کے دھرنے کے بعد ہوئی تھی۔ اس وقت یہی منظر نامہ سب پر حاوی نظر آرہا ہے۔
دوسر منظر نامہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسٹیبلششمنٹ اس بحران سے نکلنے کے لیے قومی حکومت کی تشکیل دینے کا اعلان کر دے اور اگلے عام انتخابات یعنی 2023 تک ملک کا نظام ایک قومی حکومت ہی چلاتی رہے۔ اس آپشن پر بھی کام جاری ہے۔ بہت سارے تجزیہ نگار قومی مذاکرات پر کافی زیادہ زور دےرہے ہیںجس کا مطلب اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کےمابین بات چیت کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ اگرچہ یہ مذاکرات حکومت اور اپوزیشن کے مابین ہونے ہیں مگر اپوزیشن اس پر کبھی راضی نہیں ہوگی کیونکہ مذاکرات برابری کے فریقین کے مابین ہوتے ہیں اس لیے اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو ترجیح دے گی۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کچھ لو کچھ دو پر راضی ہوجائیں گے۔
تیسرا اور غیر ممکن منظر نامہ یہ ہے کہ پاکستان عوامی تحریک عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور کئی دن تک اسلام آباد کا محاصرہ کر لیتی ہے اور عمران خان کا استعفی حاصل کرکے اگلے انتخابات کے انعقاد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ تاہم ایسا تبھی ہوسکتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی حمایت سے اپنا ہاتھ کھینچ لے۔ نواز شریف اور جمہوری تحریک کے بعض اجزا اسی وجہ سے ملٹری قیادت کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔ تاہم ایسے ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور اگر فرض محال ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد اور مرضی کے بغیر ہونا ناممکن ہے۔
سینٹ کے انتخابات مارچ 2021 میں ہورہے ہیں اور جمہوری تحریک سیاسی صورتحال تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس وقت اس بات کی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ اگر تحریک انصاف جمہوری تحریک کے حملے سے بچ جاتی ہے تو اپنی مدت پوری کرے گی تاہم 2021 میں سیاسی عدم استحکام معیشت کو مزید نقصان پہنچا کر مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ کر دےگا اور اس کو روکنے کا واحد حل، حکومت ، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین مذاکرات ہیں۔
منگل، 5 جنوری 2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com