فروری 2018 میں امریکی سینٹروں کی ایک ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔یہ ٹیم جان کیری اور جو بائیڈن پر مشتمل تھی۔ جان کیری بعد میں اوبامہ کے دور حکومت میں وزیر خارجہ بن گئے اور جو بائیڈن امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس دورے کا مقصد دہشت گردی کی جنگ میں بنیادی حلیف پاکستان کی معاشی، اقتصادی اور فوجی ضروریات کا جائزہ لینا تھا۔ افغانستان اور بھارت کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل اس ٹیم نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ جس مہینے اس ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اسی مہینے پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہونا تھا۔ نو سال کے طویل فوجی اقتدار کے بعد اس مہینے پاکستان ایک مکمل جمہوری سیٹ اپ میں داخل ہو تھا۔ ہر لحاظ سے واشنگٹن کا جنوبی ایشیائی حلیف غیر قیام پزیر تھا کیونکہ یہ دور دہشت گردی کی شدید لہر کا تھا۔ عسکری قیادت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے ہچکچا رہی تھی اور دہشت گرد بڑھ چڑھ کر شہری آبادیوں پر دہشت گرد حملے کر رہے تھے۔ دہشت گرد حملوں کے دو مختلف واقعات میں ملک کی مقبول رہنما بے نظیر بھٹو اور ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی راولپنڈی میں شہادت اس لہر کا نقط عروج تھی۔
پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اور معاشی بدحالی سے بچنے کے لئے اس وقت فوجی اور معاشی امداد کی سخت ضرورت تھی۔ اس صورتحال میں امریکی میڈیا اور ماہرین نے یہ خبریں دینا شروع کر دیں کہ امریکی ٹیم یہ تجاویز دے رہی ہے کہ امریکہ کو پاکستان کو ایک بڑا معاشی پیکج دینا ہوگا کیونکہ پاکستان کو ایک بڑے معاشی پیکج کی اشد ضرورت ہے۔ اس دورے کے نتیجے میں کیری لوگر بل نامی قانون سازی کی جس میں پاکستان کو سالانہ 5۔1 ارب ڈالر امداد دینے کا عندیہ دیا گیا۔ اس بل کی منظوری سے قبل فروری 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی ۔ اس کے ایک سال بعد جو بائیڈن امریکہ کے نائب صدر منتخب ہوگئے جس کے بعد کیری بل کیری لوگر بل میں تبدیل ہو گیا۔ تاہم نائب صدر جو بائیڈن اس بل کے پیچھے متحرک قوت تھے اور وہ ہی اس بل کو سینٹ میں پاس کروانے کے لیے اہم کردار تھے۔ 2008میں جب پاکستان جمہوری دور حکومت میں داخل ہو رہا تھا تو بش انتظامیہ نےاس ٹرانزیشن میں پاکستان کی بھر پور مدد کی تھی۔
بش انتظامیہ کے عہدیداران فوجی آمر جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے مابین رابطہ کار کا کام سر انجام دے رہے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے ہی اس منتقلی کے لیے بنیاد تیار کی تھی جو کہ پارلیمانی انتخابات کے بعد لاگو ہونا تھی۔ سینٹر جو بائیڈن اس وقت بش انتظامیہ کا حصہ نہیں تھے تاہم وہ پاکستان کے حق میں قانون سازی کے لیے متوازی کوششوں میں مصروف تھے اور انہوں نے ہی فوجی اور اقتصادی پیکج کو سول بلادستی سے مشروط کیا تھا۔
بحیثیت سینیٹر صدر جو بائیڈن نے اس بل میں ایک قانونی شرط لاگو کر دی کہ امریکی وزیر خارجہ اس امداد کی فراہمی سے قبل سول بالا دستی کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے گی۔ درحقیقت بل کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اس امداد کی فراہمی سے قبل از وقت تین فراہمی سرٹیفیکیٹ جمع کرائیں گے۔ اس بل کی پہلی شق پاکستان سے ایٹمی ہتھیاروں کے سپلائر نیٹ ورک کے خاتمے کے تعاون سے متعلق تھی اور پاکستان کو یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ اس حوالے سے تمام تر معلومات بھی امریکہ کو فراہم کریں گے۔
دوسرا سرٹیفیکیٹ پاکستان سے اس بات کا عزم لینے سے متعلق تھی کہ وہ دہشت گردوں سے جنگ کرے گا اور ان کی معاونت ترک کردے گا۔ جبکہ القاعدہ اور طالبان کے ساتھ جن عناصر کے تعلقات ہیں ان کی بیخ کنی میں بھی بھرپور کردار ادا کرے گا۔ جبکہ اپنی سرزمین کو پڑوسی ممالک میں کسی بھی دہشت گرد سرگرمی کے لیے استعمال نہیں کرنے دے گا۔ جبکہ تیسرا اور آخری سرٹیفیکیٹ کانگریس کو اس بات کی یقین دہانی کروانا تھا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کسی بھی سیاسی یا عدلیہ کے کام میں مداخلت نہیں کر رہیں اور نہ اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
صدر جو بائیڈن کو لبرل انٹرنیشنلسٹ کہا جاتا ہے اور لبرل انٹرنیشنلسٹ واشنگٹن کی وہ تحریک ہے جو کہ ریاستوں کے بین الاقوامی نظام اور ان کے بحران کو درست کرنے اور انکی پالیسی سازی کو امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ اس لیے جس وقت سے جو بائیڈن کی فتح مصدقہ ہوئی قہ تب سے نسل پرستی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور پاکستان کے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں جوبائیڈن کی جمہوریت کے لیے پالیسیز اور اس کے اپک امریکہ تعلقات پر پڑنے والے اثرات پر بحث جاری ہے۔
پاکستان 2008 کے برعکس اس وقت ایک مکمل پارلیمانی جمہوریت ہے تاہم اس وقت اس جمہوریت کے معیار پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی پر حکومتی قدغنوں پر بھی مضبوط آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ دیکھنا ہے جو بائیڈن کی قیادت میں واشنگٹن اس وقت پاکستان کے حالات کو کیسے دیکھ رہا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ واشنگٹن میڈیا کی آزادی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالے ؟ کیانئی امریکی حکومت سیاسی مخالفین کو دبانے کے الزمات پر پاکستانی حکومت کو اس عمل سے روکے اور بظاہر سیاسی منتقمانہ سیاست کا خاتمہ کر نے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یا بالفاظ دیگر لبرل انٹرنیشنلزم کی سیاسی فلاسفی پاکستان کی صورحال پر کیسے اثر انداز ہو گی۔ ان سوالوں کے جوابات تبھی مل سکیں گے جب بائیڈن انتظامیہ اپنی خارجہ پالیسی کو سامنے لائے گی۔
بدھ، 27 جنوری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com