ٹرمپ کے دور حکومت میں چار سال سے مسلسل کوششوں کے بعد بالاخر فلسطینیوں کو نئے امریکی صدر کی جانب سےاچھی خبر مل ہی گئی۔ صدر جو بائیڈن نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے امریکی امداد بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔ 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی امداد بند کر دی تھی اور مشرقی یروشلم میں امریکی مشن ختم کر کےواشنگٹن میں فلسطینی اتھارٹی کے دفتر کو بند کر دیا تھا۔ٹرمپ نے فلسطین کے حمایتی عرب بلاک کو توڑنے کے لیے خلیج میں اسرائیل حامی سفارت کاری کو فروغ دیا اور بہت ساری مشرق وسطائی ریاستوں جیسا کہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر مجبور کر کے فلسطینیوں کی عرب حمایت کا حقیقی معنوں میں خاتمہ کر دیا۔
بائیڈن کی قیادت میں بھی بعض امریکی پالیسیاں جیسا کہ عرب اسرائیل تعلقات اور یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی اسی طرح جاری رہنے کا امکان ہے۔ لیکن فلسطینی اتحاد مہم اور برطانوی فلسطینی پالیسی کونسل کے بانی ممبر کمال حواش نے بائیڈن کے امداد بحالی کے فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے۔ حواش کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ کے دور حکومت میں یہ صورتحال فلسطینی قیادت اور فلسطینی عوام کے لیے ڈیڈ اینڈ تک پہنچ گئی تھی کیونکہ امریکہ نے ہسپتالوں تک کی امداد بند کر دی تھی جس سے حالات بہت مخدوش ہو گئے تھے۔ ٹرمپ کی فلسطین مخالف پالیسیوں پر وہ کہتے ہیں کہ یہ پالیسیاں سیاسی نہیں تھیں بلکہ منتقمانہ تھیں۔
حواش کے مطابق ایک نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایک طویل عرصے سے جاری فلسطین مخالف موقف کا خاتمہ خوش آئند ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اچھا ہو گا اگر امریکہ فلسطینی اتھارٹی سے اپنے تعلقات بحال کرلے اور واشنگٹن میں پی ایل او کے دفتر کو دوبارہ کام جاری رکھنے کی اجازت دے دے اور مشرقی یروشلم میں اپنے سفارت خانے کو دوبارہ کھول دے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رچرڈ ملز نے اگرچہ یہ عندیہ دیا ہے کہ امریکہ فلسطینی امداد بحال کر دے گا تاہم انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ امریکہ مشرقی یروشلم میں اپنے سفارت خانے کو دوبارہ بحال کرے گا اور پی ایل او کو واشنگٹن میں دوبارہ کام جاری رکھنے کی اجازت دے گا۔ جو بھی ہے اس وقت بائیڈن انتظامیہ نے آتے ہی فلسطین کو خیر سگالی کا پیغام دیا ہے۔
ملز کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات کو فلسطینیوں کی حمایت نہیں کہا جا سکتا۔ امریکی امداد لاکھوں عام فلسطینیوں کو فائدہ دے گی اور ایسی سیاسی فضا کو قائم کرنے میں مدد دے گی جس کا فائدہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو ہو گا۔ فلسطینی سیاسی تجزیہ کار یوسف الہیلو واشنگٹن کے حالیہ سیاسی موڈ کا خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ الہیلو نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے خطرناک اقدامات نے نہ صرف ایک بین الاقوامی نظام کو خطرے میں ڈالا بلکہ بین الاقوامی طور پر متفقہ معاملات جیسا کہ یروشلم اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی موجودہ حیثیت کو بھی خطرے میں ڈالا ۔ حتی کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی اقوام متحدہ کہ امداد کے معاملے پر بھی مسائل کھڑے کیے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ریلیف اینڈ ورک ایجنسی کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد ان کی بقا کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
کیا دو ریاستی حل دوبارہ زیر بحث آئے گا؟
ملز نے باہمی اتفاق رائے سے دو ریاستی حل پر بھی زور دیا اور ساتھ یہ پیغام بھی دیا کہ امریکی دونوں اطراف کو بات چیت کی میز پر لانا چاہتا ہے۔ الہیلو نے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن امریکی امیج کو بہتر کر رکےامن کے مزاکرات کا رکے نعرے کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ الہیلو نے مزید کہا کہ ابھی بائیڈن کے ارادوں کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم امریکی انتظامیہ ہمیشہ سے اسرائیل کی حمایت میں رہی ہےمگر مجھے شبہ ہے کہ بائیڈن انصاف کا ساتھ دیں گے۔ ہمیں دیکھنا اور انتظار کرنا چاہیے۔یہ امید صرف الہیلو اور حواش جیسے فلسطینیوں نے ہی بائیڈن سے نہیں لگائی ہوئہ بلکہ اسرائیلی بھی پرجوش ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ اس مقدس سرزمین کے تنازعے کے حل میں اہم کردار اد کرے گی۔
جیریمی بن ایم جو کہ ایک جمہوریت پسند جیوش سیاسی گروپ جے سٹریٹ جو کہ فلسطین اسرائیل امن عمل کا حامی ہے کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امداد کی بحالی ایک درست تیز ترین عمل ہے جو کہ امریکہ کی کریڈیبلٹی کی بحالی کے انتہائی بروقت اور ضروری تھا۔ فلسطینی رہنماؤں نے بھی فلسطین اتھارٹی کی امداد کی بحالی پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ احمد ماجدالنی جو کہ پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر اور فلسطین اتھارٹی کے وزیر برائے سوشل ڈویلپمنٹ بھی ہیں کا کہنا ہے کہ پہلی دفعہ بائیڈن انتظامیہ نے امن کے عمل اور دو ریاستی حل کے لیے سرکاری طور پر عملی اقدامات اظہار کیا ہے ۔
مثبت پیغام کے باوجود حواش کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو امریکہ کے سیاسی رستے کواختیار کرنے میں محتاط رہنا چاہیے اور بین الاقوامی قوانین نے انہیں جو حقوق دیے ہیں ان پر ہر گز سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ چیز امریکیوں کو فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت پر مجبور کرے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ دو ریاستی حل کی بات تو کرتا ہے مگر وہ بات چیت کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ نہیں ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اب معاملے میں سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ احمد ماجدالنی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں فلسیطینی اتھارٹی واپس آئے گی اور بات چیت کے لیے تیار ہوگی تاہم سوال یہ ہے کہ یہ بات چیت کن بنیادوں پر ہوگی؟ مزید برآں فلسطینی اتھارٹی کو ٹرمپ کی ڈیل آف دی سنچری کی بنیاد پر ہرگز بات چیت نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ فلسطینیوں کو اس معاملے میں خبرداررہنا چاہیے کہ یہ بات چیت بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہو۔
جمعرات، 28 جنوری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com