العلا معاہدے کے ساتھ ہی خلیج کا بحران اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔قطر کا مقاطع ختم ہو گیا ہے اور نئے سیاسی جوڑ اور سرمایہ کاری کے رستے کھل گئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں نے تیل سے مالامال ممالک کے لیے اسے خوش آئند قرار دیا ہے اور شامیوں نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ شامی اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اس کشیدگی کے اختتام سے سعودی عرب ان کی حمایت میں ایک مرتبہ پھر میدان میں اتر آئے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب کیا ایسا کر پائے گا۔؟
شام کی اپوزیشن فورسز اور انقلابی اتحاد نے ال اولا اتحاد کو خوش آمدید کہا ہے اور کہا ہے کہ ملک میں جاری دس سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے شام عربوں کے متحرک کر دار کے انتظار میں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عرب اسد حکومت کے خاتمے میں ان کی بھرپور مدد کرنے کی پوزیشن میں واپس آ گئے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران مخالفت کے تناظر میں وہ یہ امید کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ شام میں ایرانی اثر کی کمی کے لیے بھی سعودی عرب خاطر خواہ اقدامات کرے گا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کی شام میں واپسی صورتحال کق مزید پیچیدہ بنائے گی اور شام جو امن کی طرف لوٹ رہا ہے اس کوو واپس اسی جہنم میں دھکیل دے گی۔
عرب شہنشاہت اور وہاں جمہوریت کا تذکرہ کیے بغیر عرب اپوزیشن پر امید ہے کہ خلیجی ریاستیں شام پر دوبارہ توجہ مرکوز کریں گی۔ شامی اپوزیشن جس کو آغاز سے ہی سعودی عرب کی جانب بشار الاسد کے خلاف اسلحے اور جنگجووں کی مدد حاصل تھی تاہم خلیجی ممالک کی ذاتی کشیدگی کی وجہ سے یہ مدد ختم ہو گئی تھی اور بشار الاسد نے دوبارہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی اور اب خلیجی ممالک کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ وہ اسد کی حکومت پر کوئی کاری ضرب لگا سکیں کیونکہ شامی افواج نے سعودی حمایت یافتہ جنگجووں کو بھر پور شکست دے دوچار کر دیا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین بائیڈن انتظامیہ کے رویے سے ہوگا۔ بائیڈن کی جانب سے ایران پر دباؤ میں کمی کی صورت میں ایران اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے گا اور اپنے حلیفوں کی پوزیشن پر بھی غور کرے گا۔ ایران کی جانب سے خطرے کے بنیاد پر سعودی عرب شام میں دوبارہ مداخلت کر سکتا ہے مگر اب یہ اس کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ بائیڈن انتظامیہ انسانی حقوق کے حوالے سے سخت موقف رکھتی ہے اور شام میں خلیجی ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں پہلے سے ہی تشویش ہے۔
شام کی مستقبل کی صورتحال سعودی عرب کے لیے انتہائی اہم ہے۔ شامی تنازع میں بحیثیت کردار سعودی عرب اپنے اس خطے میں اپنے سیاسی مفادات اور اثرو رسوخ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ امریکی سہارا لیے بغیر سعودی عرب اس خطے میں ایران کا رستہ روکنا چاہتا ہے اور عرب دنیا میں دوبارہ اپنی غالب حیثیت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ شامی اپوزیشن اس وقت تقسیم کا شکار ہے تاہم وہ ایک دوسرے سے رابطے میں ہے ۔ سعودی عرب کی جانب سے براہ راست سیاسی اور لاجسٹک سپورٹ شام کے مسئلے کو دوبارہ ابھار سکتی ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے حالیہ برسوں میں شام میں ہتھیار ڈالنے کے بعد سعودیہ دوبارہ ابھر سکتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں بعض جنگو گروپ جیسا کہ جیش الاسلام اور النصرہ وغیرہ دوبارہ سعودی امداد حاصل کرکے جنگجوؤں کو اکٹھا کر کے شام میں ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی چھیڑ سکتا ہے۔ تاہم ان بکھرے ہوئے جنگجو گروہوں کو دوبارہ اکٹھا کرنا سعودی عرب کے لیے آسان کام نہیں ہوگا اور پھر جب سعودی عرب یمن جنگ میں بھی پوری طرح ملوث اور شکست خوردہ نظر آرہا ہے اس صورت میں تو شاید ہی یہ ممکن ہو ۔ سعودی بادشاہت اگر شام جنگ میں دوبارہ کودنا چاہتی ہے تو اس کو تین طرح کی رکاٹوں کا سامنا ہوسکتاہے۔
پہلی رکاوٹ سعودی عرب کی اپنی حدود اور ذرائع ہیں۔ ایک کمزور سعودی معیشت، اندرونی مسائل اور پھر ایک ایسی امریکی حکومت جو کہ سعودی کے لیے زیادہ دوستانہ رویہ نہیں رکھتی، سعودی عرب کے ہاتھ باندھ دے گی۔ یمن میں تباہی نے سعودی عرب کے اسلحے کی خرید کو محدود کر دیا ہے اور انسانی حقوق کی پائمالی پر ممکنہ امریکہ پابندیاں سعودی عرب کو مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ کوئی نیا محاذ کھولنے سے گریز کرے۔ دوسرا قطر کے محاصرے کے بعد سعودی عرب نے شام میں اپنے کردار کو کم کر دیا تھا۔ سعودی عرب نے تاہم کہا ہے کہ خلیج بحران کے حل کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اس نے شام کے معاملے میں اپنا رویہ تبدیل کر لیا ہے۔ آخر میں شامی اپوزیشن کو تحفظ اور حمایت ترکی نے فراہم کی ہے۔ ترکی نے شام کی عبوری حکومت کے تحفظ کے لیے نہ تو اپنی فوجیں اتاری ہیں اور نہ ہی کسی اور ذرائع سے مدد کی ہے تاہم آستانہ مذاکرات میں ترکی ضامن کی حیثیت رکھتا ہے۔
شام میں دوبارہ مداخلت کے لیے ترکی کے پاس صلاحیت، ارادہ اور پھرترکی کے ساتھ تعقلقات کی بحالی ضروری ہیں اس کے بغیر یہ کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔ اگر سعودی عرب ترکی کو استعمال کرے تو اسے یقینا امریکہ کی مدد کی ضرورت نہیں رہے گی تاہم ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے ترکی شاید ہی اس معاملے میں سعودی عرب کی حمایت کرے۔
جمعتہ المبارک، 29 جنوری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com