حکومت کی جانب سے جاری انتہا پسندی کے خلاف ایک پروگرام میں ویڈیو گیم کے بارے میں بات چیت کے دوران ایک چار سالہ مسلمان بچے کا حوالہ گیا۔ یہ بچہ حکومت کے انتہا پسندی کے خلاف جاری اقدامات کا نشانہ صرف اس لیے بنا کہ وہ فلسطین کی حمایت کا اظہار کر رہا تھا۔ یہ کہانی فرانس کی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کو ہر طرح سے حکومتی پالیسیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یا چین کی بھی نہیں جہاں مسلمانوں کو جرائم میں ملوث کیا جا رہا ہے۔یہ برطانیہ ہے جہاں سینکڑوں مسلمان بچوں کو حکومتی پروگرام کے تحت انتہا پسند قرار دیا جارہا ہے جس سے مسلمان آبادی خوف کا شکار ہے۔
روک تھام کی منصوبہ بندی جس کا آغاز 2003 میں ہوا تھا اس وقت انتہا پسندی کے خلاف ایک تیز مہم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور 2015 تک یہ ہر ریاستی ادارے کی ذمہ داری بن چکی تھی کہ وہ انتہا پسندی کی نگرانی کریں اور ایسے لوگوں کی خبر رکھیں جو انتہا پسندی کی طرف مائل ہیں۔ڈاکٹر طارق یونس جو کہ مڈل سیکس یو نیورسٹی میں سائیکولوجی کے لیکچرر ہیں ‘ کا کہنا ہے کہ روک تھام کی یہ پالیسی درحقیقت نسلی تعصب کو قانونی شکل دینے کا ایک وسیع پروگرام ہے۔ روک تھام کے بارے میں بطور علت و معلول بات کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کے اثرات بچوں اور بالغوں پر یکساں ہیں۔ درحقیقت یہ انسداد دہشت گردی کی فضا قائم کر نا ہے۔ یونس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو خوف ہے کہ ان کو بدترین طریقے سے جانچا جائے گا ۔ بہت سارے مسلمان خاندان جو روک تھام کی اس پالیسی کانشانہ بنے ہیں وہ اس بارے میں خاموش رہنا پسند کرتے ہیں یا میڈیاسے اپنی شناخت چھپاکر بات کرتے ہیں۔
یونس کے مطابق ایسے افراد کے لیے عوام میں بات چیت کر نا آسان نہیں ہے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ یہ چیز انہیں حکومت کی نظروں میں برا بنا دے گی اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی کا خدشہ ہے۔ کیونکہ ایسے افراد جو انسداد دہشت گردی کی پالیسی روک تھام کے بارے میں بات کرتے ہیں حکومت انہیں اپنے لیے سخت انتہا پسند اور ملک کے لیے مسائل پیدا کرنے والا سمجھتی ہے۔
اس پروگرام نے برطانیہ میں مسلم معاشرے کے لیے پیچیدہ مسائل پیدا کیے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ مسائل مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانا اور مسلمان مخالف جذبات کا ہوا پانا ہے۔ یونس کے خیال میں یہ مشکل ترین معاملات میں سے ایک ہے کہ اس پالیسی کا مسلمانوں پر کیا کیا اثر پڑے گا خاص کر ایسی صورتحال میں جب ایک پولیس آفیسر چار سالہ بچے سے انسداد دہشت گردی کی بات کرے گا یا مسلمانوں کے دروازے پر دستک دے گا۔ یونس کے خیال میں مسلمان ایک مسلسل نادیدہ خوف کا شکار ہیں کہ پتا نہیں انہیں کب اور کس طرح جانچ پڑتال کے عمل سے گزارا جائے یہی وجہ ہے کہ اب بحیثیت مسلمان آپ سیاست’فلسطین یا دنیا میں مسلمانوں کے مصائب پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اس ڈر کی ایک اور بڑی وجہ مسلسل نگرانی کا خوف ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ نے اچھے اور برے مسلمان کی اختراع ایجاد کی ہے جس کی وجہ سے حکومتیں اور معاشرےآپ سے توقع کرتے ہیں کہ اس سوچیں اور بات کریں اور پس آپ کو خود بخود ہی مشتبہ فرد تصور کر لیا جاتا ہے۔
صدمے کا شکارمعاشرے
اگرچہ اس موضوع پر کوئی مستند یا باقاعدہ تحقیق نہیں ہوئی تاہم ایک معاشرتی تنظیم کی ریسرچ نے مسلمانوں پر اس پالیسی کے اثرات کے شواہد فراہم کیے ہیں۔ کیج نامی یہ تنظیم 2003 میں قائم ہوئی تھی اور اس کا مقصد ایسے معاشروں پر معاشرتی اثرات کا جائزہ لینا تھا جو اس جنگ میں متاثر ہوئی تھیں اور اس کے ساتھ حکومت کی انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں کا تعاقب بھی کرنا تھا ۔ کیج کے ترجمان انس مصطفی کا کہنا تھا کہ ہمارے اپنے کیسز میں ہم ایسےبچوں سے بھی واقف ہیں جو کہ روک تھام اور انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں کی وجہ سے صدمے کا اس قدر شکار ہیں کہ اکثر کا سوتے میں پیشاب خطا ہو جاتا ہے ۔ والدین کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ ان کے بچے سکولوں اور تعلیمی اداروں میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس کو منفی طور پر لیا جائےاور اس کو انتہا پسندی کے زمرے میں نہ لے لیا جائے۔
مصطفٰی کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے میں کسی ایک کمیونٹی کو بجائے اپنا ساتھی سمجھنے کہ انہیں سیکورٹی خطرہ قرار دینا اس کمیونٹی کو ذہنی اذیت دینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور پھر اس ذہنی اذیت کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کے بارے کوئی نہیں سوچتا۔ اس ذہنی شاک کی مثال دنیا بھر میں سیاہ فام افراد کی حالت زار کی مدد سے دی جاسکتی ہے کہ کس طرح وہ ریاستی اور پولیس تشدد کانشانہ بنتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے یہ نتیجہ پہلے سے ہی اخذ کر رکھا ہے کہ برطانیہ میں رہنے والا مسلم معاشرہ جرائم کی طرف مائل ہے۔ یعنی یہ جرم تاحال سرزد نہیں ہوا بلکہ مستقبل میں کہیں سرزد ہوگا۔
مسلمانوں کے خلاف طویل نظریاتی جنگ
لورپول کی جون مورز یونیورسٹی میں انسداد دہشت گردی میں ڈگری حاصل کرنے والے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوان کے مطابق روک تھام کا یہ پروگرام تمام مسلم معاشرے کے بارے میں معلومات کے حصول ،ان کی نگرانی اور کے مستقبل کے معمولات کا کا ایک جامع او رمؤثر پروگرام ہے 2008 میں میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے ایک طالبعلم صابر دہشت گردوں کی تکنیک پر ریسیرچ کر رہا تھا جس پر یونیورسٹی نے پولیس کو مطلع کیا کہ وہ القاعدہ کا ٹریننگ مینول ڈاؤن لوڈ کر رہا ہے جس کو امریکی ویب سائٹس سے بھی حاصل کیا جاتا ہے اور برطانیہ میں کتابوں کی کسی بھی بڑی دکان سے خریدا جا سکتا ہے۔ صابر کو اس جرم میں جیل میں بند کر دیا گیا تھا اور وہ کئی دن جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوااور اس کی گرفتاری کو درست ثابت کرنے کے لیے اس کے خلاف جھوٹے شواہد بھی گھڑ لیے گئے۔
اگرچہ یونیورسٹی اور پولیس کے اس فعل کا تعلق روک تھام کے پورگرام سے ہر گز نہیں تھا تاہم مسلمانوں کے خلاف تمام تر شکوک و شبہات کے پیچھے یہی پروگرام ہے۔ صابر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ روک تھام جیسے پروگرام مسلمانوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری نظریاتی جنگ کا حصہ ہیں اور اس جنگ کو سیاست اور اعتقاد کے ساتھ ملفوف کر کے مسلمانوں کو انصاف اور مساوات سے محروم رکھا جارہا ہے اور انہیں ہر جگہ شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ 2019 میں برطانوی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ روک تھام نامی پروگرام کو ختم کر دے گی جس سے انسانی حقوق کے کارکنان کو امید کی کرن نظر آئی تھی۔ تاہم امسال جنوری میں قدامت پسند حکومت نے ولیم شاہ کراس کو اس ادارے کا سربراہ مقرر کر کے اس کے خاتمے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
واضح رہے کہ شو کراس جو کہ ایک دائیں بازو کی تنظیم ہنری جیکسن کے سابق ڈائریکٹر بھی ہیں نے ماضی میں کہا تھا کہ اسلام مستقبل کا سب بے بڑا اور خوفناک ترین مسئلہ ہے۔ جب 2012 میں شوکراس کو 2012 میں برطانوی چیرٹی کمشین کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا تھا اور کمیشن کا کام این جی اوز کے کام کی نگرانی کرنا تھا اور اس عہدے پر فائز ہونے کے فورا بعد انہوں نے مسلمان چیریٹیز کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ دی۔ ولیم شوکراس جیسے اسلام مخالف شخص کو اس عہدے پر فائز کرنا روک تھام کے پروگرام کو قابل احترام اور قابل احتساب ہونے کا ماسک پہنانا ہے جبکہ اس ادارے کے عزائم پہلے سے ہی واضح ہیں۔
جمعرات، 4 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com