میانمر ایک مرتبہ پھر آمریت کے پنجوں میں پھنس چکا ہے اور جمہوریت کی بساط ایک مرتبہ پھر لپیٹی جا چکی ہے جبکہ جمہوری حکمرانوں بشمول سوچی کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث یہ جرنیل ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آگئے ہیں اور اس مرتبہ فوج کے پاس مکمل اختیار اور طاقت ہے اس لیے اس وقت سب سے زیادہ پریشانی روہنگیا مسلمانوں کو ہے کہ ان کے ساتھ نہ جانے کیسا سلوک کیا جائے گا کیونکہ فوج کا ماضی اور ان کے مظالم روہنگیا مسلمان پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔
فوج کے اقتدار میں آتے ہی اس وقت سب سے بڑا سوال ملک میں انسانی حقوق کا مخدوش مستقبل ہے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سب سے بڑا شکار روہنگیا مسلمان اور نسلی اقلیتیں ہیں۔ یہ کہنا ابھی بہت قبل از وقت ہے کہ اس فوجی قبضے کے اثرات کیا ہوں گے تاہم اس امر کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے آمریت کے اس دور اور سیاسی بے چینی میں روہنگیا اور دیگر اقلیتوں کے لیے مشکل ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے اسوقت چھ لاکھ روہنگیا مسلمان میانمر میں قیام پزیر ہیں اور فوجی دور حکومت میں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا تاہم روہنگیا کے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پہلے ہی معاشرتی طور پر الگ ہو چکے ہیں اور جمہوری دور میں بھی ان کے ساتھ بدترین سلوک ہی ہوا ہے۔اور یہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ جمہوری دور حکومت میں بھی روہنگیا کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیااور آن سانگ سوچی اس قتل عام میں فوج کی حمایت میں شانہ بشانہ نظر آئیں۔ سوچی نے نہ صرف اس قتل عام کی حمایت کی بلکہ بین الاقوامی تنقید پر فوج کا دفاع بھی کیا۔ روہنگیا کا قتل عام ایک طویل عرصے سے جاری ہے تاہم 2017 میں روہنگیا کے خلاف پرتشدد واقعات میں اس وقت اضافہ دیکھنے کو ملا جب ان کے ایک گاؤں کو آگ لگا دی گئئ اور تقریبا 70،0000روہنگیاجان کے خوف سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کر گئے۔ بنگلہ دیش اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ بدھ مذہب کے اکثریتی ملک میں ہزاروں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو آگ میں جلا دیا گیا اور عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اب روہنگیا مسلمان فوج پر یقین نہیں کرتے کیونکہ یہی فوجی جرنیل ، جنرل من آنگ ہلینگ روہنگیا کے خلاف جرائم کا اولین کردار تھےاور اس وقت انہوں نے ہی میانمر کے اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک روہنگیا مسلمان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیےفوجی حکومت ہو یا سول کوئی فرق نہیں رکھتی کیونکہ ہمارے لیے کچھ بھی تبدیل ہونے والا نہیں۔ جو کچھ انہوں نے ہمارے ساتھ کیا وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بعض نقادوں کے خیال میں روہنگیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقتدار میں فوج ہے یا جمہوری حکومت کیونکہ دونوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر روہنگیا مسلمانوں سے بدتر سلوک کرنے کی کوشش کی ہے۔
فوج نے ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ فوج غیر معمولی قوت کا استعمال کرکے اور مختلف شعبوں میں آزادیاں سلب کرے گی۔ فوجی شب خون سے روہنگیا کو ایک اور بڑے آپریشن کا خدشہ ہے ۔ مزید برآں میانمر میں مارشل لاء نے پڑوسی ملک نگلہ دیش کو بھی پریشان کر دیا ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ نئی فوجی حکومت بنگلہ دیش میں موجودہ میانمر پناہ گزینوں کو وطن واپس قبول کرنے کے معاہدے سے پھر جائے گی۔
بنگلہ دیش قریبا دس لاکھ روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جو کہ کچھ سال قبل مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں بھاگ کر بنگلہ دیش آ گئے تھے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ایک اندازے کے مطابق چھ لاکھ روہنگیا اس وقت بھی میانمر م میں مقیم ہیں تاہم نہ تو ان کو شہریت کا حق حاصل ہے اور نہ ہی ووٹنگ کا۔ میانمر کی 30 فیصد آبادی مختلف نسلوں کی اقلیتوں پر مشتمل ہے اور یہ قریبا 130 مختلف گروہ ہیں ۔ ان میں سے بعض گروہوں کے مسلح ونگ بھی ہیں اور میانمر دنیا کی طویل ترین خانہ جنگی کا شکار ہے اور اس خانہ جنگ کا آغاز میانمر کی آزادی یعنی 1948 سے ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔
ہفتہ، 6 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com