نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ یمن جنگ میں حوثی انصاراللہ کے خلاف سعودی عرب کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ جو بائیڈن کے اس اعلان سے سعودی عرب پر بھی اس جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔تاہم یہ سوال پھر بھی باقی رہے گا کہ کیا غربت سے پسے اس عرب ملک میں امن قائم ہو سکے گا؟ ایرانی حمایت یافتہ حوثی انصاراللہ ملک کے شمالی حصے اور دارالحکومت صنعا پر قابض ہیں جبکہ ملک کے دیگر حصوں پر مختلف جنگجو قبائل اور سیاسی و خطی اتحاد قابل ہیں جن کی پشت پناہی سعودی عرب کر رہاہے اور یہ جنگ 2015 سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ اور مغربی و خطی ممالک یمن میں طاقت کے اشتراک کے سیاسی حل کے لیے کمربستہ ہیں تاہم دیکھنا ہے کہ کیا تمام جنگجو قوتیں کسی فارمولے پر راضی ہوجائیں گی؟یمن کی موجودہ صورتحال سے لگتا ہے کہ ملک میں برسرپیکار قوتیں شاید ہی کسی بات پر متفق ہوسکیں اور متفق ہو بھی جائیں تو شاید ہی اس معاہدے پر قائم رہ سکیں۔
یمن میں کون لڑ رہا ہے اور اس قدر قتل عام کیوں ہے؟
یمن کی جنگ ستمبر 2014 میں اس وقت شروع ہوئی جب حوثیوں نے صنعاء پر قبضہ کر لیا اور جنوب کی طرف حرکت کی تاکہ ملک کے دیگر حصوں پر بھی قبضہ جمایا جائے۔ سعودی عرب، عرب امارات اور دیگر ممالک اس وقت کے وزیر اعظم منصور ہادی کی حمایت میں اس جنگ میں کود پڑے۔ مسلح تنازعات لوکیشن اور ایونٹ پراجیکٹ کے مطابق ٹارگٹڈ حملوں میں اب تک ایک لاکھ تیس ہزار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں 13000 عام شہری بھی شامل ہیں۔ سیو دا چلڈرن نامی امدادی ادارے کے ایک اندازے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 85000 بچے قحط اور بیماریوں سے جاں بحق ہوچکے ہییں جبکہ یمن کا صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اس لیے کرونا وبا کی تباہی کا درست انداز میں اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکا۔
اس جنگ میں سبھی اطراف نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے تاہم سعودی عرب کی بلا امتیاز وحشیانہ بمباری سے اور امریکی ساختہ بموں سے سکول کے بچوں اور عام شہریوں کی بے تحاشا اموات ہوئی ہیں کیونکہ سعودی عرب کے ہوائی حملوں میں نہ تو کوئی سکول محفوظ رہا ہے اور نہ کوئی اسپتال۔ عرب امارات نے جیلوں میں موجود قیدیوں پر زر خرید القاعدہ کے جنگجوؤن کی مدد سے ستم کے پہاڑ توڑے اور جنسی جرائم کی انتہا کی۔ جب کہ حوثی انصاراللہ پر الزام ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کو جنگ میں بطور سپاہی استعمال کر رہے ہیں۔
یمن میں جنگ کیوں ہے؟
جزیرہ نما عرب کی جنوبی پٹی کے ساتھ واقع یمن جنوبی مارکسسٹوں اور شمالی جمہوریہ کے مابین سرد جنگ کی وجہ سے پہلے سے ہی تقسیم کا شکار تھا۔ دونوں اطراف نے 1990 میں یمن کو متحد کر دیا تاہم اس دوران 1994 میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جس کے بعد علی عبداللہ صالح اقتدار میں آ گئے۔ صالح ایک طاقتور حکمران تھے جن کا جنگجو گروہوں اور قبائلی گروہوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد قائم تھا۔ ایک دہائی قبل جب عرب بہار شروع ہوئی تو صالح کی حکومت پر گرفت کمزور پڑ گئی جس پر اس نے اپنا ایک نائب صدر منتخب کیا جس کا نام ابو منصور ہادی تھا تاہم ہادی نے اقتارپر مکمل قبضہ کر لیا۔ حوثی انصاراللہ اور ہادی کی افواج کے مابین جنگ میں صالح نے ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا اور وہ حوثی انصاراللہ کے شانہ بشانہ وہ ہادی کے خلاف برسرپیکار ہوگئے تاہم بعد میں انہوں نے حوثی انصاراللہ کو دھوکا دے کر اندر اندر سے منصور ہادی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کی سازش کی اور اسی دوران صالح ایک حملے میں جاں بحق ہوگئے۔
اس دوران مغربی اور عرب ممالک نے ایران پر الزامات عائد کرنا شروع کر دیے کہ وہ حوثی انصاراللہ کو اسلحہ اور دیگر لاجسٹک مدد فراہم کر رہا ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات اس بات سے خائف تھے کہ حوثی حزب اللہ کی طرح ایک اور طاقتور گروہ بن کر ابھریں گے اور ان کے لیے مشکلارت پیدا کریں گے ۔ اس لیے سعودی عرب اور عرب امارات نے مغربی ممالک سے دھڑا دھڑا اسلحے کی خرید شروع کر دی اور یمن پر ہر طرح کا اسلحہ آزمایا تاہم حوثی انصاراللہ کی جانب سے سعودی عرب پر ڈرون حملوں نے اس کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہوا ہے جن کے پاس نہ تو کھانے کے لیے خوراک ہے اور نہ پینے کے لیے پانی۔ ادویات کی شدید قلت ہے اور اس وقت 29 ملین افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔
امریکہ اس جنگ میں کیوں ملوث ہے؟
اس جنگ میں سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی ملوث ہے اور اس کی بڑی وجہ یمن میں القاعدہ کی موجودگی ہے ۔ 11 ستمبر 2001 میں امریکی ٹاورز پر حملے کے بعد سے امریکہ القاعدہ کو اپنا اولین اور خطرناک ترین دشمن تصور کرتا ہے ۔ 2000 میں القاعدہ نے یمن کے ساحلی شہر عدن سے امریکی بحری جہاز پہ حملہ کر کے جہاز راں عملے کے 17 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ جارج ڈبلیو بش کے بعد سے ہر امریکی صدر نے یمن پر ڈرون حملوں کی پالیسی جاری رکھی اور قریبا 1300 افراد کو ہلاک کیا جن میں 115 عام شہری بھی شامل تھے۔ یہ امریکی افوج یمن میں صالح کے ماتحت کام کررہی تھیں۔ اس کے بعد جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو انہوں نے یمن میں خصوصی افواج تعینات کر دیں
اسی اثنا میں امریکہ نے سعودی عرب کو جنگ جہاز اور اسلحہ بھی فروخت کیا جو سعودی عرب نے یمن میں عام شہریوں پر بے دریغ استعمال کیا۔ 2015 میں اوبامہ انتظامیہ نے سعودی عرب کو کمانڈ اینڈ کنٹرول میں اپنی مدد کی پیش کیش کی تھی جس کا مقصد شہری اموات کو کم کرنا تھا ۔ تاہم سعودی عرب اس پر تیار نہیں ہوا اور اوبامہ نے بھی اس تجویز کو واپس لے لیا۔ ٹرمپ کی زیر نگرانی اسلحے کی یہ فروخت جاری رہی تاہم کچھ عرصے بعد امریکہ نے سعودی جنگی طیاروں کو فیول کی فراہمی روک دی۔
مزید برآں 2019 میں حوثی انصاراللہ کے ایک ڈرون حملے میں سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل ریفائنری آرامکو کو نقصان پہنچنے سے تیل کی سپلائی معطل ہوگئی تھی جس کے بعد امریکہ نے اس حصے میں اپنے دستے تعینات کر دیے تھے۔ اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری حوثیوں نے قبول کی تھی تاہم امریکی اور اقوام متحدہ کے ماہرین اس کو ایران کی کارستانی قرار دیتے رہے۔ اگرچہ بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کی زمینی سالمیت کا دفاع کرے گا تاہم اس نے یمن جنگ میں سعودی امداد ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
کیا یہ جنگ کبھی ختم ہوگی؟
جو بائیڈن کے اعلان کا مقصد سعودی عرب پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ یمن میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جاری جنگ سے اپنا ہاتھ کھینچ لے۔ عرب امارات نے 2019 میں اپنی زمینی افواج کو یمن سے نکال لیا تھا اور جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا عندیہ بھی دیا تھا۔ شہزادہ خالد بن سلمان جو کہ بادشاہ سلمان کے بیٹے اور وزیر دفاع بھی ہیں نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب یمن میں ایک پائیدار سیاسی حل کا خواہاں ہے۔ یہ جنگ ان کے والد شاہ سلمان اور بھائی محمد سلمان کو بہت بھاری پڑی ہے۔ تاہم اس جنگ کے خاتمے کی اقوام متحدہ کی تمام تر کاوشیں بے سود ثابت ہوئی ہیں ۔ سعودی عرب اور حوثی انصارا للہ کے مابین کوئی بھی امن معاہدہ مستقبل میں دوبارہ تقسیم کا سبب بن سکتا ہے۔
اتوار، 7 فروری 2021
شفقنااردو
ur.shafaqna.com