کرونا وبا کے دوران ہر ملک نے لاک ڈاون کا نفاذ کیا اور لوگوں کو قرنطینہ میں رہ کر کام کرنا پڑا بلکہ بہت سارے لوگ اب بھی قرنطینہ میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ قرنطینہ میں دیگر افراد سے دوری کی وجہ سے سوشل میڈیا کے استعمال میں بے بہا اضافہ ہوا۔ انٹرنیٹ پر لوگوں کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کس طرح مختلف سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر روزمرہ کی بنیاد پر متحرک ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئٹر جیسی ایپلی کیشنز کا بڑھتا استعمال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ آخر سوشل میڈیا کے اس بے تحاشا استعمال کے ہماری نفسیات پر کیا اثرات ہوں گے اور یہ ہمارے رویوں کو کس طرح متاثر کرے گا۔
فیس بک کی نیوز فیڈ پر انگلیاں گھماتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ یہ نیوز فیڈ اس سے بہت مختلف ہے جیسے میں ماضی میں استعمال کرتا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 2009 میں میں نے فیس بک اکاونٹ بنایا تھا تو رات سونے سے قبل میرا آخری کام فیس بک اکاونٹ کو دیکھنا تھا اور صبح اٹھ کر اولین کام بھی یہی تھا۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جیسے فیس بک میں نئے فیچرز شامل ہوئے میں نے محسوس کیا کہ بہت سادے لوگ سوشل لائف میں مکمل طور پر گم ہو گئے اور اپنی تعریف کے لیے مختلف سرگرمیاں دکھانے لگے۔ سوشل میڈیا کا یہ استعمال کھانے کی میزوں، دوران سفر اور پکنک کے دوران اس وقت دیکھا گیا جب لوگ ان چیزوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا شروع ہوئے اور ان کو دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ شئیر کرنے کا عمل شروع کیا۔
اس سرمایہ دار معاشرے میں رہنے والے تمام لوگ ہی سوشل مخلوق ہیں۔ اپنی ذاتی انا کو بلند کرنے کی شدید خواہش ہمیں معاشرتی دکھلاوے کے لیے اکساتی ہے اور سوشل میڈیا کے اس دور میں دکھلاوے کا یہ عمل بہت آسان ہو گیا ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ جو شہرت اور دکھلاوے کو زیادہ پسند نہیں کرتے وہ بھی اکثر اوقات۔ سوشل میڈیا پر سٹیٹس لگاتے، فوٹو البم اپلوڈ کرتے اور پوسٹیں کرتے نظر آتے ہیں۔شروع میں فیس بک نے دوستوں اور تعلق داروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کا بہترین پلیٹ فارم مہیا کہا تاہم بعد میں اس نے لوگوں کو سٹیٹس کے بارے میں فکرمند کر دیا۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ فیس بک پر ان کے دوستوں نے کیسے کپڑے پہن رکھے ہیں، چھٹیاں کہاں گزار رہے ہیں، وہ کس یونیورسٹی میں داخلہ لے رہے ہیں اور ان کا لائف سٹائل کیسا ہے؟ یہ تمام چیزیں ہر فرد کو کسی نہ کسی طرح متاثر کر رہی ہیں۔ اپنے ارگرد موجود افراد کی کامیابیاں ہمیں خوش کرتی ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمارے اندر احساس محرومی کا سبب بھی بنتی ہیں جو کہ انسان کی زندگی کو غلط راستے پر ڈال دیتا ہے۔
ابتدا میں جب مجھے انسٹا گرام کے بارے میں معلوم ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس ایپلی کیشن کا کوئی حقیقی استعمال نہیں ہے کیونکہ فیس بک پہلے ہی اس طرح کے آپشنز متعارف کروا چکی ہے جو کہ انسٹا گرام نے کروائے ہیں۔ تاہم انسٹا گرام ایک لحاظ سے مکمل طور پر الگ چیز ضرور ہے ۔ یہ آپ کی زندگی کو تصویروں میں مقید کرتا ہے اور الفاظ کی نسبت تصاویر سے آپ کو بیان کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ان پلیٹ فارمز کے ساتھ ہی نیو انفلوئنشل افراد بھی سامنے آئے ۔ یہ نیو انفلوئنشلز مختلف برانڈز کے ساتھ معاہدے کر کے ان کی مصنوعات کی تشہیر کرتے ہیں۔ مختلف برانڈز نے ٹی وی اور دیگر الیکٹرانک میڈیاز کی نسبت سوشل میڈیاز پر اپنی مصنوعات کی تشہیر شروع کر دی ہے۔ ان مصنوعات کو بہت سارے لوگ بطور فیشن خرید کر سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتے ہیں جس سے ان کے ایسے دوست یا اقارب جو ایسی مصنوعات کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ اس کے حصول کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ذہنی طور پر مختلف بیماریوں کو شکار ہوجاتے ہیں۔
ہم روزمرہ زندگی میں بہت سارے احساسات اور جذبات کا شکار ہوتے ہیں ۔ اور اپنے ان احساسات و جذبات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگ اگر ہم سے ہمارے احساسات سے متعلق متفق نہ بھی ہوں تب بھی ہم کوشش کرتے ہیں کہ اپنے اندر کے غبار کو اس امید پر باہر نکالتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تو ہمیں سنے گا اور ہمیں سمجھ کر ہماری بات کو درست تسلیم کرے گا۔ اس صورتحا ل کے لیے ٹوئٹر وجود میں آیا جہاں لوگ اپنی رائے کو کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک اور انسٹا گرام کے مابین بہت فرق ہے۔ ٹوئٹر تصاویر اور سٹیسٹس کی نسبت صرف الفاظ کی دنیا ہے جہاں بہت سارے لوگ اپنے خیالات کا اظہار الفاظ کی شکل میں کر سکتے ہیں ۔ مزید برآں ٹوئٹر پر کوئی بھی شخص شیخی اور دکھلاوے کا اظہار نہیں کرتا۔ ہاں وہ اپنے خیالات کو الفاظ کی شکل میں ضرور منتقل کر کے دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہر ایک چیز اب مقاصد سے جڑی ہے، ہیش ٹیگ ، شادی شدہ افراد کے مقاصد، دوستی کے مقاصد، والدین کے مقاصد، سفر کے مقاصد، ملازمت کے مقاصد اور دیگر کئی ایسے مقاصد۔ اپنے عزیزو اقارب کی جانب سے ایسی پوسٹس دیکھ کر ہمارا پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اس بات کو سمجھے بغیر کہ ان کا ماضی کیا ہے۔ ہم دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کسی کی سالگرہ پر کسی کو کتنے لائکس ملےہیں؟ کسی کی شادی پر اس کی سہیلیوں نے کس قدر سجاوٹ کا اہتمام کیا ہے یا کسی شخص کے گھر یا اس کی نوکری کتنی مثالی ہے۔ ان سب چیزوں کا موازنہ ہم اپنی ذات ، اپنے گھر ، اپنی نوکری یا دیگر معمولات زندگی کے ساتھ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے انسان اپنے اطمینان اور قناعت کو کھوتا جاتاہے۔
یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ لوگوں کی اصلیت کبھی بھی سوشل میڈیا پر سامنے نہیں آتی اکثر اوقات خوشی کی تصاویر اور کامیابی کی کہانیوں کے پیچھے بہت ساری سخت محنت، شبانہ روز کی کاوشیں اور مصائب کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ لوگ پھولوں کو کھلتا دیکھتے ہیں تاہم وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ اس پھول کے کھلنے کے پیچھے کس قدر تکلیف اور محنت پنہاں ہے، کیسے جڑوں نے زمین سےپانی کو سینچا ہے اور اسے کتنی محنت سے پتوں تک پہنچایا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا پر خود کا دوسروں سے موازنہ کرنا انسان کو احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے کیونکہ ہم میں سےکوئی بھی کسی کی کامیابی کی حقیقت کونہیں جانتا۔ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ کامیابی کے لیے کوئی مختصر رستہ موجود نہیں ہے ۔ کامیابی کے لیے سخت محنت اور تکالیف کے ایک سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی کی زندگی مثالی نہیں ہے ۔ ہر شخص مسائل کا شکار ہے چاہے اس کا مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا ۔ سوشل میڈیا پر مسئلہ یہ ہے کہ بہت کم لوگ اپنی تکالیف اور ناکامیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اکثر اوقات تصویر کا حسین رخ ہی پیش کرتےہیں۔ پس مقابلے کا یہ جنون انسان کا کو نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار بنا دیتا ہے جن سے نکلنا اس کے لیے نا ممکن ہوجاتا ہے۔
منگل ، 9 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com