کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا ایک دشمن ایسا بھی ہے جو آپ کو جسمانی ، ذہنی ، جذباتی اور روحانی طور پر تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے؟آپ کا یہ دشمن آپ کی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور اسے جب بھی موقع ملتا ہے وہ ان کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھا کر آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ دشمن دن رات آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے ایک منٹ چین نہیں ہے وہ اس وقت کا شدت سے انتظار کرتا ہے جب آپ مکمل طور پر کمزور ہوجاتے ہیں اور پھر وہ اس وقت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر آپ پر وار کرتا ہے۔
وہ مسلسل اور مستقلا آپ کو برے کاموں میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس سے نہ صرف آپ اپنا نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد موجود لوگوں اور گھر والوں کو بھی نقصان پہنچانےکا سبب بن جاتے ہیں۔یہ صرف آپ کا دشمن نہیں یہ میرا ، میرے گھر والوں کا اور ہر انسان کا دشمن ہےاور قطع نظر وہ شخص کس نسل اور کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ مجھے یقین ہے آپ اس دشمن تک پہنچ گئے ہوں گے بلاشبہ یہ دشمن شیطان ہی ہے۔
قرآن کریم کی نظر میں شیطان
قرآن کریم میں شیطان کا ذکر بار بار آیا ہے۔ اللہ پاک نے ہمیں بار بار آگاہ کیا ہے کہ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ” اے لوگو زمین پر جو کچھ ہے ان میں سے پاکیزہ اور حلال چیزوں خو کھاو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے”۔(2:168)
ایک اور آیت میں اللہ پاک فرماتے ہیں” اے لوگو تم میں سے جو ایمان لائےوہ پورے کہ پورے اسلام میں داخل ہو جاو اور شیطان کے نقش قدم پہ نہ چلو ۔بے شک وہ تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے” (2:208)
اسی طرح ایک اور آیت میں اللہ پاک نے انسان کو شیطان سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا ہے” اور (پیدا کیے) بوجھ اٹھانے والے مویشی بھی اور زمین سے لگے ہوئے ھیں، اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، وہ تمہارا صریحا دشمن ہے۔”(142:6)
اس حوالے سے بہت ساری ایسی آیات موجود ہیں۔ ایک اور آیت میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ”بے شک شیطان تو تمہارا دشمن ہے سو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنی جماعت کو بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخیوں میں سے ہو جائیں”(35:6)
اپنے دشمن کی چالوں کو سمجھنا
قرآن کریم میں شیطان کے بارے میں بہت تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ اللہ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ شیطان مغرور، باغی اور گناہوں سے بھرا ہوا ہے اور وہ برے کاموں کو پسند کرتا ہے اس لیے جو کچھ شیطان پسند کرتا ہے ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے۔
تاہم شیطان سے بچنے کے لیے ہمیں اس کی چالوں کو سمجھنا ہو گا کہ کس طرح شیطان ہمیں اپنی چالوں میں پھنساتا ہے۔ ابلیس نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تا قیامت لوگوں کو اچھائی اور نیکی کے رستے سے بھٹکاتا رہے گا اور انہیں گناہوں پر مائل کرتا رہے گا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ہے” اور البتہ انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور البتہ ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم کروں گا کہ جانوروں کے کان چیریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں، اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے گا وہ صریح نقصان میں جا پڑا” (119:4)
ایک اور جگہ ارشاد ہے”کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا، اور تو اکثر کو ان میں سے شکرگزار نہیں پائے گا۔ فرمایا یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا، جو شخص ان میں سے تیرا کہا مانے گا میں تم سب کو جہنم میں بھر دوں گا۔ (7:16-18).
ان آیات سے ہمیں پتا چلتا ہے شیطان ہمارے خلاف ایک مہم پر ہے۔اس مہم کا مقصد ہمیں گمراہ کرنا اور ہمیں آخرت میں ناکام کرنا ہے۔
شیطان ہمارے اوپر کتنا اختیار رکھتا ہے؟
ابلیس ہمارے اوپر کوئی اختیار نہیں رکھتا بشرطیکہ ہم اسے اپنے اوپر حاوی ہونے دیں۔ اللہ پاک شیطان کےبارے میں فرماتے ہیں۔
"جو ایمان والے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، اور جو کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں سو تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو، بے شک شیطان کا فریب کمزور ہے۔” (4:76).
بے شک شیطان ہماری کزوریوں کو جانتا ہے اور ہمیں گناہ والی چیزوں کی محبت میں مبتلا کرتا ہے لیکن اس بات کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اسے کیسے روکتے ہیں اور برائی سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار جھوٹ اور مکرو فریب ہیں ۔ جب شیطان جان لیتا ہے کہ آپ کبھی بھی کفر کو تسلیم نہیں کریں گے تو وہ آپ کو بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے تاہم انسان شیطان سرگوشیوں کو نظر انداز کر کے خود کو ابلیس کے مکرو فریب سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ دس ایسی چیزیں ہیں جن پر عمل کر کے شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوط رہ سکتا ہے۔
1۔ دنیا سے بے تحاشا محبت
دنیا اورزندگی سے پیار ہمیں ہمارے بنیادی مقصد یعنی اللہ کی عبادت اور اس کے رستے پر چلنے والے راستے سے بھٹکا سکتا ہے اور ایک مرتبہ اگر آپ اس دنیا میں اپنے آنے کے مقصد کو بھول گئے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ کا دشمن کامیاب ہوگیا ہے۔
2. موت کو یاد نہ رکھنا
یہ بات پہلی بات کی طرح ہی ہے ۔ موت کو یاد رکھنا بہت اہم ہے ۔ جب ہم موت کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ادارک ہوتا ہے کہ یہ زندگی بہت عارضی ہے ۔ یہ سوچ ہمیں دنیا کی مشکلات سے نمنٹے کا حوصلہ بھی عطا کرتی ہے اس لیے جب کوئی بندہ موت کے بارے میں سوچنا چھوڑ دے تو وہ دنیا کے لہو لعب میں کھو جاتا ہے جس سے ابلیس خوش ہوتا ہے۔
3. کنجوسی کا مظاہرہ کرنا
کیا جب آپ خیرات کرتے ہیں تو آپ کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کہ آپ اتنے پیسے خیرات میں دینا برداشت کرسکتے ہیں؟ سوچیں یہ سوال آپ کے ذہن میں کون ڈالتا ہے؟ یہ یقینا ابلیس ہے ۔ آپ جتنا زیادہ مال و دولت اکٹھا کریں گے اللہ کی نعمتیں تم پر کم ہوتی جائیں گی۔ آج کے مادی دور میں انسان کی دولت سے محبت بہت بڑھ گئی ہے اور یہ چیز شیطان کے رستے پر لے کر جانے والی ہے۔
4. اپنے اندر غرور کو جگہ دینا
صحیح مسلم میں ارشاد ہے کہ اگر تمہارے دل میں مٹر کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے تو تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے۔ تکبر ظلم اور نسلی عصبیت کی جڑ ہے۔ تکبر ابلیس کی اہم ترین خاصیت ہے۔ یہ تکبر ہی تھا جس نے سے جنت سے نکلوا دیا ۔ اس لیے تکبر سے اپنے دل کو پاک کرنا ایمان کا اہم ترین جزو ہے
5. دکھاوا کرنا
اللہ پاک کی ذات دکھاوے کو پسند نہیں فرماتی کیونکہ یہ شیطانی فعل ہے ۔ اس لیے ہمیں دکھلاوے اور تصنع سے خود کو پاک رکھنا چاہیے۔
6. اللہ کے احکامات کو نہ ماننا
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارا امتحان ہوگا ۔ اس لیے بہت سارے لوگ جب مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں تو پوچھتے ہیں میں ہی کیوں؟ میں اس مصیبت میں کیوں مبتلا ہوگیا ہوں؟ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ جب آپ اس قسم کے سوال پوچھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ اللہ سے ناراضی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں اور آپ اللہ کے فیصلوں پر سوال اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی سوچوں سے شیطان آپ کے دماغ پر قابض ہوجاتا ہے اور آپ شیطانی چال میں پھنس جاتے ہیں۔
7. خواہشات کا غلام بن جانا
اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنے اور نفس کی ہر خواہش کو پورا کرنے سے انسان بدعنوان ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اپنے نفس کی ہر خواہش کو پورا کرنا شروع کر دیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ صبح فجر کے وقت نماز کے لیے کبھی نہ اٹھیں، ہر وہ چیز دیکھیں یا سنیں جو حرا م ہے ، غیبت اور ہر گناہ بلا تامل کرتے رہیں۔
8. منفی سوچوں کو جگہ دینا
ہر چیز کے منفی پہلو کے بارے میں سوچنا زندگی کو مشکل کردیتا ہے اور انسان اللہ کی نظروں میں ناشکرا ہوجاتا ہے۔ اس لیے یہ عادت شیطان کو بہت پسند ہے اور اللہ پاک کو سخت ناپسند۔ اس لیے ہمیں ہر چیز پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی نعمتوں پر اس کی تعریف بجا لانی چاہیے۔
9. گناہ کو چھوٹا سمجھنا
گناہ کو چھوٹا سمجھنا سب سے خطرناک مرض ہے ۔ ہم جیسے جیسے اپنے گناہوں کو حقیر تصور کرتے ہیں ویسے ویسے شیطان کے قریب ہوتے جاتے ہیں اور اللہ کے قرب سے محروم ہوجاتے ہیں۔
10. فخراور برتری کا احساس
اس بات کا فخر کہ کوئی شخص دنیا میں اور آخرت میں اللہ کی سزا سے محفوظ رہے گا ایک بدتر عمل ہے۔ شیطان بعض لوگوں کو اس بات پر قائل کرتا ہے کہ وہ بہت اچھے اعمال کر رہے ہیں اور یقینا جنت کے حق دار ہیں ۔ ہمیں کبھی بھی اپنے اعمال پر فخر نہیں کرنا چاہیے ۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کس حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوں گے۔ ہمیں عاجزی اختیار کرنی چاہیے اور ہر وقت اللہ سے معافی کا طلبگار ہونا چاہیے۔
یہ وہ دس اعمال ہیں جو ہمیں اللہ کے قریب اور شیطان سے دور لے جاتے ہیں۔
پیر، 8 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com