دنیا کی دوسری بلند ترین اور پاکستان کی سب سے بلند ترین چوٹی کے-ٹو (8،611 میٹر بلند) سر کرنے کی کوشش کے دوران 3 کوہ پیما 2 روز قبل لاپتا ہوئے۔
پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدہ پارہ اور ان کے 2 ٖغیرملکی ساتھیوں آئس لینڈ جان اسنوری اور چلی کے جوآن پابلو موہر نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے چوٹی تک پہنچنے کا سفر شروع کیا تھا۔
امکان تھا کہ وہ 5 فروری کو موسم سرما میں کے ٹو سر کرلیں گے لیکن جمعے کی رات کو ان کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔
ساجد علی سدپارہ جو محمد علی سدپارہ کے بیٹے اور کوہ پیما بھی ہیں وہ بھی ‘بوٹل نیک’ ( کے ٹو کا خطرناک ترین مقام جہاں کئی جان لیوا حادثے رونما ہوچکے ہیں) تک لاپتا ہونے والے تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کی وجہ سے انہوں نے بیس کیمپ 3 پر واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور وہ گزشتہ روز واپس پہنچے تھے۔
الپائن کلب پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار کرار حیدری نے بتایا کہ ‘8000 میٹر بلندی کے بعد بیس کیمپ کو علی سد پارہ اور ان کے غیر ملکی ساتھیوں کی جانب سے کوئی سگنل موصول نہیں ہوئے تھے’۔
بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد گزشتہ روز ہیلی کاپٹروں نے تینوں کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کے لیے 7000 میٹر تک پرواز کی تھی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا اور آج (7 فروری کو) ریسکیو مشن دوبارہ شروع کیا گیا تھا لیکن اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
خیال رہے کہ محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے اس سے قبل 24 جنوری کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔
تینوں کوہ پیماؤں کی کوئی خبر نہ ملنے کی وجہ سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کی باحفاظت واپسی کے لیے صارفین دعا گو ہیں اور اس حوالے سے ٹوئٹر پر علی سدپارہ کا ہیش ٹیگ ‘alisadpara#’بھی ٹرینڈ کررہا ہے۔
انیلہ بتول نامی صارف نے لکھا کہ وہ علی سدپارہ، جان اسنوری اور جوآن پابلو کی واپسی کے لیے دعا گو ہیں۔
اسما برجیس نے لکھا کہ دعا ہے کہ وہ باحفاظت واپس آئیں۔
ثنا نامی صارف نے لکھا کہ محمد علی سدپارہ کی باحفاظت واپسی کے لیے دعا گو ہوں۔
حکومت پاکستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ‘ ہمارے ہیرو محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کی باحفاظت واپسی کے لیے دعا گو ہیں’۔
وفاقی وزیر توانانی عمر ایوب خان نے ٹوئٹ کی کہ وہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی باحفاظت واپسی کے لیے دعا کررہے ہیں۔
عفان نامی صارف نے لکھا کہ کے-ٹو کا درجہ حرارت اس وقت منفی 41 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، علی سدپارہ، جان اسنوری اور جے پی موہر 48 گھنٹے سے زائد دورانیے سے لاپتا ہیں، دعا کریں ور امید کریں کہ کوئی معجزہ ہوجائے۔
سحر طارق نے لکھا کہ محمد علی سدپارہ سے متعلق بہت اداسی ہورہی ہے اور کسی معجزے کی دعا کررہی ہوں کہ کوہ پیما باحفاظت واپس آئیں۔
اسکردو ڈاٹ پی کے نام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ نے گوگل ارتھ سے کے -ٹو کی سیٹیلائٹ تصاویر بھیجنے کی درخواست کہ تاکہ تینوں کوہ پیماؤں کی لوکیشن معلوم کرنے میں مدد مل سکے۔
مسئلہ کشمیر پر قائم پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین شہریار خان آفریدی نے ٹوئٹ کی کہ ہمارے ہیرو سدپارہ، پوری قوم آپ کے لیے دعا کررہی ہے، باحفاظت اپنی سرزمین پر واپس لوٹیں، ہم سب آپ کے منتظر ہیں، آپ ان حالات سے زیادہ مضبوط ہیں۔
محمد علی سد پارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل روک دیا گیا
پاکستان کے کوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو سر کرنے کی کوشش کرنے کے دوران لاپتا ہونے والے 2 غیر ملکی کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل دوسرے روز عارضی طور پر روک دیا گیا۔
محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے ایم پی مہر سے اس وقت تک رابطہ نہیں ہوسکا جب سے انہوں نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کیمپ 3 سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا۔
ریسکیو مشن میں مقامی چوٹیاں سر کرنے والے 4 کوہ پیما، شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علیم، داوا شیرپا اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔
علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارپ نے کے-ٹو سرچ آپریشن کے بعد سکردو میں میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کو کے-ٹو سر کرنے کے بعد واپسی میں کوئی حادثہ ہوا ہے، وہ 8200 میٹر کی بلندی تک پہنچے تھے۔
ساجد پارہ نے کہا ہے تین دنوں تک لاپتہ ہونے کے بعد شدید ترین سردی میں زندہ بچنے کے بہت کم امکانات ہیں، اس موسم میں بغیر ساز و سامان کے تین دنوں تک کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ہے تاہم باڈیز کو لانے کے لیے آپریشن کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آکسیجن سلینڈر میں خرابی سے میری طبیعت بگڑنے پر میرے والد نے مجھے واپس کیمپ تھری بھجوا دیا تھا۔
ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ علی سدپارہ کی تلاش میں پاک آرمی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے خاندانوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن تیز ہوائیں اور خراب موسم کامیاب آپریشن میں حائل رہا،
اس سے قبل کوہ پیما ٹیم کے ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ لاپتا کوہ پیماؤں نے چوٹی سر کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ریسکیو ٹیمز انہیں راستوں پر ہیلی کاپٹر کی مدد سے تلاش کررہی ہیں اور جب تک تینوں مل نہیں جاتے یہ تلاش جاری رہے گی۔
ٹیم کے ایک دوسرے عہدیدار نے بتایا کہ ریسکیو ٹیمز کوہ پیماؤں کو تلاش کرنے کے لیے سخت کوششیں کررہی ہیں۔
خیال رہے کہ فضائی نگرانی کے ذریعے تلاشی کا عمل ہفتے کو شروع کیا گیا تھا تاہم موسم خراب ہونے کی وجہ سے اسے جاری رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔
دوسری جانب ساجد سد پارہ کیمپ 3 پر 20 گھنٹوں تک لاپتا کوہ پیماؤں کا انتظار کرنے کے بعد وہ بھی بیس کیمپ پہنچ گئے۔
ساجد ‘بوٹل نیک’ (یہ کے ٹو کا خطرناک ترین مقام ہے جہاں کئی جان لیوا حادثات رونما ہوچکے ہیں) کے نام سے مشہور مقام تک ان تینوں کوہ پیماؤں کے ہمراہ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کے سبب کیمپ 3 پر واپس آئے تھے۔
تینوں کوہ پیماؤں کا جمعے کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا اور ان کی ٹیم کو جب ان کی جانب سے رپورٹ موصول ہونا بند ہوگئی تو ہفتے کو وہ لاپتا قرار پائے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو الپائن کلب پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار کرار حیدری نے بتایا کہ ‘8000 میٹر کے بعد بیس کیمپ کو علی سد پارہ اور ان کے غیر ملکی ساتھیوں کی جانب سے کوئی سگنل موصول نہیں ہوئے، ان کی تلاش کا عمل جاری ہے محفوظ واپسی کے لیے دعا کریں۔
محمد علی سدپارہ، ان کے بیٹے ساجد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری اور چلی کے ایم پی موہر نے آرام کیے بغیر کیمپ 3 سے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب رات 12 بجے کے ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔
ہفتے کے روز ہیلی کاپٹروں نے لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کے لیے 7000 میٹر تک پرواز کی تھی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔
قبل ازیں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ تینوں کوہ پیماؤں نے کے 2 کی چوٹی سر کرلی ہے اور انہیں گلگت بلتستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ سمیت سرکاری عہدیداروں نے مبارکباد بھی دی تھی تاہم اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا تھا اور تاحال یہ غیر واضح ہے کہ کیا وہ جمعے کے روز چوٹی سر کرنے میں کامیاب رہے تھے یا نہیں۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ مصدقہ خبر صرف یہ تھی کہ کوہ پیماؤں نے بوٹل نیک پار کرلی ہے جس کی وجہ سے ہی سمجھا گیا کہ وہ چوٹی تک پہنچ گئے ہیں۔
خیال رہے کہ محمد علی سدپارہ، ان کے بیٹے ساجد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری اور چلی کے ایم پی موہر نے آرام کیے بغیر کیمپ 3 سے جمعرات اور جمعہ کی درمیان شب رات 12 بجے کے ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔
تاہم اس مہم کے بقیہ 19 افراد نے مہم سر نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہاں رکنے کے بعد اگلے دن جمعہ کی صبح نیچے آ گئے تھے۔
شاہ محمود قریشی کا آئس لینڈ کے وزیر خارجہ سے رابطہ
دوسری جانب آئس لینڈ کے وزیر خارجہ گڈ لاؤگر تھور تھور دارسون نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطے میں آئس لینڈ کے لاپتا ہونے والے کوہ پیما جون سنوری کے حوالے سے گفتگو کی۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق وزیر خارجہ نے کہا کہ کوہ پیماؤں کی گمشدگی پر گہری تشویش ہے، ان کی تلاش کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے آئس لینڈ کے وزیر خارجہ کو لاپتا کوہ پیماؤں کی کھوج لگانے کے لیے جاری ریسکیو اینڈ سرچ آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
آئیس لینڈ کے وزیر خارجہ نے جون سنوری سمیت لاپتا ہونے والے کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پاکستان کی طرف سے جاری کاوشوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔
منبع: ڈان نیوز