جو بائیڈن کے اقتداار میں آنے کے ساتھ ہی دنیا میں یہ بحث چھڑ گئی کہ جو بائیڈن دنیا کے حالیہ تناظر اور تنازعات میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس حوالے سے بائیڈن کے اقدامات پر مختلف رائیں اور تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین، ایران کا ایٹمی مسئلہ، یمن جنگ، مسئلہ کشمیر اور بہت سارے دیگر معاملات پر بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں ۔ جہاں بائیڈن انتظامیہ کے آنے سے دنیا کے بہت سارے ممالک خوش ہیں کہ دنیا میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے وہیں امریکہ کا قریبی حلیف سعودی عرب پریشان ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انہوں نے یمن، شام اور ایران کے ساتھ جو کچھ کیا ہووہ سب واپس ہو جائے گا اور ان کی سرمایہ ڈوب جائے گی جبکہ اسرائیل بھی اس حوالے سے پریشان ہے ٹرمپ کےد ور حکومت میں انہوں نے اسرائیل کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان پر پانی نہ پھر جائے۔
دنیامیں جاری تنازعات کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ سعودی صحافی جمال کشوگی کا بہیمانہ قتل بھی تھا جس میں سعوی ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت پائے گئے تھے اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اس قتل کا ذمہ دار بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ٹھہرایا تھا۔ جمال کشوگی کو2اکتوبر 2018 کواستنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا. دسمبر 2019 میں ایک سعودی عدالت قتل کا مقدمہ چلا کر 5 افراد کو سزائے موت سناچکی ہے،جمال کشوگی کے بیٹوں نے مئی 2020 میں اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیاتھا تاہم دنیا کو معلوم ہے کہ جمال کشوگی کے بیٹوں نے کس دباؤ کے تحت اپنے والد کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بہتر تعلقات ہونے کی وجہ سے امریکہ نے محمد بن سلمان کو اس قتل سے نہ صرف بری الزمہ قرار دے دیا بلکہ اس امر میں محمد بن سلمان کی وکالت بھی کی تاہم حالیہ امریکہ صدر جوبائیڈن نے اس معاملے کو ایک مرتبہ پھر اٹھانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے اپنے ایک بیان میں انکشاف کیا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے سعودی حکومت مخالف صحافی جمال کشوگی کے قتل کی خفیہ رپورٹ کانگریس کو پیش کرنے کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے اس بارے میں مزید کہا کہ یہ قانون ہے اور ہم اس قانون پر عمل کریں گے. اس سے قبل امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے کے ڈائریکٹر اپریل ہینس نے بتایا تھا کہ جوبائیڈن انتطامیہ معروف سعودی صحافی جمال کشوگی کے قتل سے متعلق خفیہ رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے. جمال کشوگی کے قتل سے متعلق خفیہ رپورٹ کو منظرعام پر لائے کے معنی یہ ہیں کہ جوبائیڈن انتظامیہ باضابطہ طور سعودی ولیعہد بن سلمان کو جمال کشوگی کے قتل کاذمہ دار قرار دیئے جانے کا اراداہ رکھتی ہے۔
اگر نئی امریکی انتظامیہ اس رپورٹ کو کانگریس میں پیش کر کے سعودی ولی عہد کو اس قتل کا باضابطہ مجرم قرار دے دیتی ہے تو اس سے بن سلمان کے سیاسی مستقبل پر کئی سوالیہ نشان لگ جائیں گے اور ان کا سیاسی کیریر ختم ہو کر رہ جائے گا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کریں گے؟ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے یہ عندیہ دیا ہے تاہم اس بات پر عمل ہونا ممکن نہیں اور اس کی کئی ٹھوس وجوہات ہیں۔ اول امریکہ سعودی عرب کا حلیف ہے اور تیل کی دولت سے مالا مال ملک کی اس زمینی معدنیات سے امریکہ نے ہمشیہ فائدہ اٹھایا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا بڑا حجم ہے جس کو نئی بائیڈن انتظامیہ کبھی بھی داؤ پر نہیں لگائی گے۔ دوسری اہم بات امریکہ کے اسلحے کا سب سے بڑا بیوپاری سعودی عرب ہے اور امریکی معیشت کا زیادہ انحصار اسلحے کی فروخت پر ہے اس لیے بائیڈن انتظامیہ ایک بڑے خریدار کو کبھی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دی۔
اس حوالے سے تیسرا اہم پہلو اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین بحال ہوتے تعلقات ہیں اور ان میں سعودی عرب کا کردار ہے۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ اور اسرائیل کے مابین ویسے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے جیسا ٹرمپ اور اسرائیل کے مابین تھے تاہم ہر امریکی حکومت نے اسرائیل کی سرپرستی کی ہے اور ہمیشہ سے اسرائیل کے مفادات کو سب سے آگے رکھا ہے اس لیے ممکنہ اسرائیلی دباؤ کے تحت بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا اور اس حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا یہ اعلان صرف محمد بن سلمان پر دباؤ ڈالنے کا ایک منصوبہ ہے جس کے لیے کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل کیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس دباؤ کے نتیجے میں سعودی عرب سے کیا مطالبات منواتی ہے۔
منگل، 9 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com