پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے تمام جماعتوں نے اپنے نامزد امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے جس کے بعد سے کچھ ناموں پر مختلف وجوہات کی بنا پر سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ان ناموں میں جہاں ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا پر تنقید ہو رہی ہے وہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اور سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کا نام بھی زیر بحث ہے۔ ادھر حکمران جماعت پی ٹی آئی نے گذشتہ روز سے سامنے آنے والی تنقید کے بعد بلوچستان سے سینیٹ کے لیے امیدوار عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر ظہور آغا کو جاری کر دیا ہے۔
فیصل واڈا کے بارے میں پی ٹی آئی کے مشہور کارکن شکور شاد نے خبردار کیا ہے کہ اگر فیصل واوڈا کو ٹکٹملا تو وہ پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیں گے۔ جب کہ فیصل واوڈا کے لیے سینٹکا ٹکٹ زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں سینٹر بن کر وہ نااہلی کی تلوار سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ فیصل واوڈا اس وقت بھی اسلام آباد ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں دوہری شہریت کے بارے میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ فیصل واوڈا نے جب پچھلے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تو مبینہ طور پر ان کے پاس امریکہ کی شہریت بھی تھی،شہریت نہ ہونے کی وہ ابھی تک کوئی دستاویزپیش نہیں کر سکے اور الیکشن کمیشن نے نااہلی کیس میں باربار التوا مانگنے پر واوڈا پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا تھا۔
عمران خان صاحب نے فیصل واوڈا کے مخالفین کو کہا ہے کہ فیصل واوڈا کی پارٹی کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور ان کو سینٹ کا ٹکٹلازمی دیا جائے گا۔ یہ بات حیران کن نہیںہے کہ خان صاحب واوڈا کی حمایت کیوں کر رہے ہیںحقیقت یہ ہے کہ واوڈا بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک بتائے جاتے ہیں اور مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ خان صاحب کے اے ٹی ایم ہیں۔ فیصل واوڈا کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی خاصی تنقید کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ انہیں سینٹ میں ایک دبنگ آواز کی ضرورت ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ انہیں سینٹ کا ٹکٹ اس لیے دیا گیا تاکہ انہیں اس مقدمے سے بچایا جا سکے۔
پی ٹی آئی میں ایک اختلاف ڈاکٹر عامر لیاقت کا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ حفیظ شیخ کو ہرگز ووٹ نہیں دیںگے کیونکہ نہ تو وہ پارٹی کا حصہ ہیں اور نہ ہی ان کی پارٹی کے لیے کوئی اور خدمات۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوانے نجی اللہ خٹک، سندھ کی تنظیم نے فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو کی نامزدگی پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔سیف اللہ ابڑو پر الزامات ہیں کہ وہ نیب زدہ اور آصف علی زرداری کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی طرفہ تماشہ ہے کہ سیاست میں اخلاقیات اور شفافیت کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن عمل یکسر مختلف ہے۔ اس تمام تر صورتحال سے یہ بات واضح ہے کہ حکمران جماعت میں شدید اختلافات موجود ہیں جن کو اگرچہ فی الوقت دبا دیا گیا ہے تاہم ان کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔
سینٹ کے انتخابات میں پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کر رہی ہیں اور کرنی بھی چاہئے لیکن حکمران جماعت کی طرف سے شفافیت،ایمانداری اور راست بازی کا چرچا کیا جارہا ہے۔اس حوالے سے ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔یہ بھی درست ہے سینٹ کے انتخابات میں ماضی میں کرپشن کی داستانیں زبان زد عام و خاص رہی ہیں لیکن اس نظام کو درست کرنے کیلئے محض دعوؤں سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے بات آگے بڑھ سکتی ہے اور جس شعبے میں بھی آئینی و قانونی اصلاحات لانی ہوں وہ اپوزیشن سے مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں۔
سینٹ انتخابات میں صاف چلی شفاف چلی پارٹی کے بارے میں ایک چونکا دینے والا انکشاف عمران خان کے سابق دوست اور تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نےبھی کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ایک دوست ان کے پاس یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ اگر وہ فارن فنڈنگ کیس سے علیحدہ ہوجائیں تو انہیں سینیٹ کا چئیرمین بنوایا جاسکتا ہے۔ سوچنا چاہئے کہ ہر معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے خواہش مند عمران خان کیا اس بیان پر بھی کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم کریں گے؟ وزیر اعظم نے نہ جانے کس مجبوری یا گمان میں یہ پیغام بھیجا ہوگا کیوں کہ پی ڈی ایم تو یوسف رضا گیلانی کو نیا چئیر مین سینیٹ بنوانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ مگر سینٹ کے حالیہ انتخابات میں یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ سینٹ ٹکٹ انہیں لوگوں میں تقسیم کیے گئے ہیں جو یہ سب خریدنے کی سکت رکھتے تھے یا جن کے پاس بھاری اثاثہ جات تھے۔ سینٹ الیکن اوپن بیلٹ سے ہوں یا خفیہ وہی لوگ سینٹ میں آئیں گے جن کی جیبیں بھری ہوئی ہوں گی اور جو پارٹی پر خرچ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔
بدھ، 17 فروری 2021
شفقنااردو
ur.shafaqna.com