سعودی عرب کے دولت مند اور طاقتور ولی عہد محمد بن سلمان جو کہ ہمیشہ خود کو طاقتور اور دنیا کی توجہ کا مرکز دیکھنےکےخواہاں رہے ہیں یقینا اس وقت سے اپنے دانت پیس رہے ہوں گے جب سے انہوں نے یہ الفاظ سنے ہوں گے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن نےان کی تذلیل کی ہے۔وائٹ ہاؤس نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے امریکہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نق تعین کرنا چاہتا ہے اور مستقبل میں تمام تر سفارتکاری دقنوں ممالک کے ہم منصبوں کے مابین ہو گی۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان چین پساکی نے کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ کا یہ اقدام ہم منصب سے ہم منصب مصروفیات اور رابطے کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جوبائیڈن کے ہم منصب سعودی شاہ ہیں اور جب وقت آئے گا تو صدر صرف اپنے ہم منصب سے ہی بات کریں گے لیکن میں رابطے کے حوالے سے فی الحال کوئی ٹائم لائن نہیں دے سکتی۔
اسی اثنا میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان متوقع طور پر امریکہ کے سیکرٹری دفاع لوئڈ آسٹن سے ملاقات کریں گے کیونکہ اس وقت ان کے پاس وزیر دفاع کا عہدہ ہے۔ ٹرمپ کے دور حکومت میں تمام تر اختیارات کے بلا شرکت غیرے مالک ہونے والے بن سلمان کے لیے یہ بہت شرمندگی کی بات ہے۔
محمد بن سلمان کی پالیسیوں نے انہیں اچھوت بنا دیا ہے
جو بائیڈن کے اس فیصلے کے پیچھے ماضی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ان کے سعودی عرب کے بارے میں وہ مسلسل حملے تھے جن کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو اپنے پیش رو کی نسبت ایک مختلف اور اصولوں پر مبنی سفارتی رستہ اختیار کریں گے۔
اپنے پڑوسی دوست محمد بن زید کے ساتھ مل کر محمد بن سلمان نے خطےمیں جمہوریت کو پس پشت ڈال کر جدت لانے کی کوشش کی۔ محمد بن سلمان اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر مشرق وسطی کو مغربی طرز کے طاقتورشہنشاہت اور شیخوں کی حکومت میں بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ عرب لیگ سے بھی پیچھا چھڑا کر ملک کو انگریزی طرز پر ڈھالنا چاہتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے اہم پروجیکٹ کو میگا سٹی کا نام بھی دیا۔
اگرچہ محمد بن سلمان ملک کو قدامت پسندی سے نکال کر جدت پسندی کی طرف لے کر جانے والے اہم ترین کردار ہونے کی وجہ سے اپنے ملک میں خاصی شہرت رکھتے ہیں تاہم بین الاقوامی طور پر ا ن کی شہرت اچھوتوں کی طرز کی ہے۔ بن سلمان کو سعودی صحافی خمال خشقجی کا قاتل سمجھا جاتا ہے۔ جمال خاشقجی کو 2018 میں استنبول میں سعودی سفارتخانے میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ سی آئی اے سے لے کر اقوام متحدہ تک تمام تحقیقی اداروں نے اس قتل کا ذمہ بن سلمان کے قریبی لوگوں پر ڈالا تھا اور کہا تھا کہ بم سلمان کے حکم کے بغیر ایسا ہونا نا ممکن تھا۔
ایک طرف تو بن سلمان سعودی عرب کو مغربیت اور لبرلزم کی راہ پر چلانے کے وژن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں تاہم دوسری جانب وہ مسلسل انسانی حقوق کے رہنماوں کو خاص طور خواتین رہنماوں کو عورتوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی کوششوں کے جرم میں پابند سلاسل بھی کیا۔ اسلامی تعلیمات اور نظریات کے خلاف بن سلمان کی کوششوں پر کڑی تنقید کے جرم میں انہوں بعض اسلامی سکالرز جیسا کہ سلمان الاودا ، عمر المقبل اور کئی دیگر کوسلاخوں کے پیچھے بھجوایا.
ان سب میں بن سلمان کا سب سے تباہ کن فیصلہ یمن جنگ میں کودنا تھ۔ یمن جنگ یمنی لوگوں کا داخلی معاملہ تھا تاہم سعودی عرب اپنے پہلو میں ایران کے کسی حلیف کو قبول کرنے پر ہرگز تیار نہ تھا۔ اس لیے اس نے یمن جنگ میں کود کر حالات کو مزید خراب کیا ۔ جس سے یمن میں سب سے بڑے انسانی بحران نے جنم لیا اور اس وقت 2 کروڑ کے قریب لوگ قحط کے دہانے پر ہیں جبکہ سعودی عرب کو بھی مسلسل حوثیوں کے درون اور میزائل حملوں کا خدشہ درپیش ہے۔ بن سلمان کا خیال تھا کہ یمن کو چند تیز اور بروقت فضائی حملوں سے فتح کرلینا ممکن ہوگا مگر یہ جنگ چھ سالہ طویل جنگ بن چکی ہے اور سعودی عرب کو صرف اتنی فتح حاصل ہوئی ہے کہ اس کے حلیف عرب امارات نے جزیرہ سکوٹرا پر قبضہ کر لیا ہے۔
بائیڈن کو سعودی عرب کی ضرورت ہے بن سلمان کی نہیں
جس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتداار تھے بن سلمان کو اپنے تمام خواب پورے ہوتے نظر آرہے تھے ۔ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ ذاتی تعلقات کی وجہ سے بن سلمان نے نہ صرف اپنی مرضی کا امریکی اسلحہ خریدا بلکہ یمن جنگ کے لیے تمام ضروری خفیہ معلومات بھی حاصل کیں اور خود کو کشوگی کے قتل کے بعد بچا بھی لیا جب کہ انسانی حقوق کی علمبردار عورتوں کو بھی گرفتار کیا کیونکہ و ہ جانتے تھے کہ ان کی پشت پر ٹرمپ موجود ہیں۔ تاہم اب جو بائیڈن نے اپنے ووٹرز کودکھانا ہے کہ وہ ٹرمپ کی طرز سیاست کی مکمل نفی کریں گے اور اس لیے وہ بن سلمان کے مقابلے میں شاہ سلمان کو اہمیت دیں گے جو کہ ان کے ہم عمر بھی ہیں اور ہم منصب بھی۔
محمد بن سلمان کی سرزنش سے وائٹ ہاؤس نے ان کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ انہیں ناسمجھ بچہ سمجتھی ہے جس کے ابھی کھیل کود کے دن ہیں تاہم اب اس کے بڑے ہونے کا وقت آ گیا ہے ۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ بادشاہ سلمان اپنے 35 سالہ بیٹے کو ایک طرف کرتےہیں یا ان کے حق میں دسبردار ہوتے ہیں اور اگر وہ بیٹے کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں تو بائیڈن انتظامیہ کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ کیونکہ واشنگٹن کو خلیج وسطٰی میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیشہ سے ریاض کی ضرورت رہی ہے۔ سعودی عرب نہ صرف خلیج وسطی کے دیگر عرب ممالک پر اثرو رسوخ رکھتا ہے بلکہ مسلم دنیا میں ابھی اسے مقامات مقدسہ کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مزید برآں سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے جو امریکہ کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اگر بن سلمان اپنے والد کی جگہ بادشاہ بن گئے تو بائیڈن کو مجبورا انہی کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑیں گے۔ دوسری جانب بن سلمان بھی واشنگٹن کو واضح طور پر یہ پیغام بھیج چکے ہیں کہ وہ ریاض میں واشنگٹن کے مفادات کے لیے کام کرنے پر تیارہیں۔
ٹرمپ کے دور حکومت میں بن سلمان نے خلیج وسطٰی میں ٹرمپ کی پالیسی کو آگے بڑھایا اور اب قطر کے ساتھ تعلقات بحال کر کے اور سماجی کارکن لوجین ال ہتھلول کو رہا کر کے انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کوپیغام دیا ہے کہ وہ ان کی ایما پر کام کرنے پر تیار ہیں تاہم بائیڈن کی خواہش ہے کہ یمن جنگ کا خاتمہ ہو جائے اور سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت روک دی جائے اور یہ وہ دو مسائل ہیں جن پر بن سلمان کا سرجھکانا شاید مشکل ہوجائے مگر وہ کوشش کریں گے کہ ان معاملات پر بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ایسے مل کر چلیں کہ وہ بھی خفا نہ ہوں اور انکا کام بھی ہوجائے۔ بن سلمان کی موجودہ حیثیت ظاہر کرتی ہے کہ اگر چہ وہ اپنے ملک میں مقبول ہیں تاہم یہ شہرت مستقل نہیں ہے اور انہیں اقتدار میں رہنے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ کسی بھی وقت دیگر شہزادوں کی حمایت کر کے بن سلمان کو اقتدار سے کسی بھی وقت الگ کر سکتا ہے۔
جمعرات، 18 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com