سینٹ انتخابات آں پہنچے ہیں اور اس وقت سب سے زیادہ فوکس سید یوسف رضا گیلانی اور حیفظ شیخ پر ہے۔ جس وقت یوسف رضا گیلانی کا انتخاب ہوا تو اس وقت یہ چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ نہ تو اپوزیشن کے پاس مطلوبہ نمبرز ہیں اور نہ ہی وہ تعداد کہ وہ یوسف رضا گیلانی کو منتخب کروا سکیں۔ ان کے جیتنے کے امکانات کتنے ہیں اور اس حوالے سے پیپلزپارٹی سید یوسف رضا گیلانی کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ کیا آصف علی زرداری سابقہ چئیرمین سینٹ کی طرح ان کو منتخب کروا سکتے ہیں یا نہیں؟ تاہم جس طرح ان کے تجویز اور تائید کنندہ دہ بالترتیب شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف بنے ہیں، تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے بارے میں خود مسلم لیگ ن کتنی سنجیدہ ہے اور انہیں پی ڈی ایم کی طرف سے اسلام آباد کی نشست پر نامزد کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟
واضح رہے کہ 20 ستمبر 2020 کو پی ڈی ایم کا اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی نے بلایا تھااور وہاں اکیس پوائنٹ کا ایک علامیہ جاری کیا گیا تھا۔ جس کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ جمہوریٹ کو غیر سیاسی مداخلت سے نجات دلائی جائے۔ یوسف رضا گیلانی ایک پرانے سیاسی ہیں اور ان کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کی سابقہ کانفرنس کے بعد آصف علی زرداری صاحب نے کہا تھا کہ انہیں مینڈیٹ دیا جائے وہ پرویز مشرف کو نکالنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور میں ان ہاؤس تبدیلی سے اس حکومت کو گرا دوں گا۔ اس لیے پی ڈی ایم نے آصف علی زرداری کو یہ ٹیسٹ کیس دیا ہے۔ اور اگر آصف علی زرداری اس ٹیسٹ کیس میں کامیاب ہوتے ہیں تو پی ڈی ایم کی بلی بھی تھیلے سے باہر آجائے گی کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آصف علی زرداری کو بیک ڈور چینلز کی حمایت حاصل ہوگی اور اگر مات ہوتی ہے تو تب بھی یہ پی ڈی ایم کے لیے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ان کی ہار سے پی ڈی ایم کا عوام میں موجود بیانیہ ہار جائے گا۔
یوسف رضا گیلانی کو سینٹ ٹکٹ فراہم کرنے کا دوسرا بڑا مقصد جنوبی پنجاب کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان جمہوری تحریک پاکستان کے اس حصے کو اہم سمجھتی ہے اور اس کو نمائندگی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب سے صرف ایک ممبر عون عباس پبی کو ٹکٹ دیا ہے اور جنوبی پنجاب کے مقبول سیاستدان جہانگیر ترین کو بھی سائیڈ لائن کر دیا ہے اور پی ڈی ایم کا مقصد جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا ہے اور یہ کام وہ کامیابی سے کر لے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جہانگیر ترین پس پردہ یوسف رضا گیلانی کی حمایت کے لیے بعض ممبران کو تحریک انصاف سے توڑنے کی کوشش کریں۔ مزید برآں بات صرف ان کے سینیٹر منتخب ہونے تک کی نہیں ہے بلکہ اصل مرحلہ اس وقت آئے گا جب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہو گا اور سید یوسف رضا گیلانی ایک بڑی قدآور شخصیت کے طور پر پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے چیئرمین شپ کے لئے میدان میں اتریں گے۔
تحریک انصاف کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے یہ مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ ٹوٹنے سے کیسے روکے، کیونکہ سید یوسف رضا گیلانی جیسا منجھا ہوا سیاستدان جو اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے اور جس کے مختلف سیاسی خاندانوں سے دیرینہ تعلقات ہیں ، اس کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کی حیثیت سے بھی یوسف رضا گیلانی نے بہت سی سیاسی قوتوں کو اپنی روایتی دوستی کے جال میں جکڑ رکھا ہے، اس لیے جب وہ مہم چلائیں گے تو وہ کافی حد تک صورتحال تبدیل کرسکتے ہیں۔ ویسے قومی اسمبلی میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ،جمعیت علماء اسلام ف ،بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتیں اور فاٹا کے ارکان اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی نے معمولی سا بھی اپنا ۔۔ذاتی اثرورسوخ استعمال کیا ،تو ان کا جیتنا یقینی ہو جائے گا۔
قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی تعداد کو ذہن میں رکھیں تو گیلانی صاحب کی جیت ناممکن نظر آتی ہے۔ وطن عزیز کی سیاست میں تاہم نظر آنے والے ”حقائق“ کو اکثر نظرانداز کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ”حقائق“ کی حقیقتاً اگر کوئی وقعت ہوتی تو صادق سنجرانی اسی روز اپنے منصب سے مستعفی ہو جاتے جب 104 اراکین پر مشتمل ایوان بالا میں 64 اراکین کی حمایت والی اپوزیشن جماعتوں نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ سنجرانی صاحب مگر اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک کا سامنا کرنے کو ڈٹ گئے۔ بالآخر خفیہ رائے شماری کی برکت سے اپنے عہدے پر براجمان رہے۔ گیلانی صاحب کے ضمن میں ویسی ہی ”برکت“ بروئے کار آ سکتی ہے اور اگر ایسا ہوجاتاہے تو اس کا مطلب ہے عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کے لیے بھی مکمل طور پر تیار رہنا چاہیے۔
جمعتہ المبارک، 19 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com