اور بالاخر وہ دن آگیا۔ 28 دن کے تکلیف دہ انتظار کے بعد آخرکار امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزی اعظم بنجامن نتین یاہو سے فون پر بات چیت کی جس سے وہ تمام افواہیں دم توڑ گئیں کہ اسرائیل اور امریکہ کی دوستی کے باوجود بائیدن نتین یاہو سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی ایک حقیقت یہ ہے کہ فون کال بی محض سفارتی آداب کا ایک حصہ تھی تاکہ اسرائیل میڈیا کا منہ بند کیا جاسکے۔ امریکی میڈیا میں بھی یہ سوال گرد کر رہے ہیں کہ کیا جو بائیڈن ایک نئی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہیں جو ماضی سے مکمل طور پر مختلف ہوگی؟
ممکن ہے مشرق وسطٰی سے متعلق اس پالیسی کی بنیاد ابراہام معاہدے سے لی جائے اور ٹرمپ کی پالیسی کو بہتر طور پر نئے انداز میں ڈھالا جائے ، جیسا کہ سعودی عرب کو لگام ڈالی جائے عرب امارات، ترکی اور مصر کے پر کاٹے کائیں ، یمن اور لبیا میں جنگ کا خاتمہ کیا جائے اور ایران کے ساتھ کھلی بات چیت کے ذریعے ایران ایٹمی معاہدے کی از سرنو تجدید کی جائے ۔ یہ تمام وہ نکات ہیں جو بائیڈن کی مستقبل خارجہ پالیسی کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب جو بائیڈن اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کے ساتھ کھلم کھلا مقابلے پر بھی ہیں ۔ نتین یاہو سابقہ صدراور ان کی ٹیم کے بہت قریبی دوست سمجھے جاتے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے شام میں حزب اللہ پر ہوائی حملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نتین یاہو جو بائیڈن کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر چکےہیں۔
یہ فضائی حملہ ایک طرح سے بائیڈن کے لیے لٹمس ٹیسٹ بھی تھا کہ وہ اس پر کیا رد عمل دیتے ہیں اور شام میں امریکی دستوں میں کمی کا فیصلہ کرتے ہیں اور ان کے بقول بہادر کردز کی حمایت میں کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔ حال ہی میں پی کے کے کے دہشت گردوں نے تیرہ ترک شہریوں کو اغوا کر کے قتل کر دیا تھا جس سے ترکی اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی دیکھی گئی کیونکہ اس معاملے میں بائیڈن نے ترکی کو ایک طرف کر دیا ہے ۔ ترکی کےساتھ امریکہ کا سخت رویہ نتین یاہو کے کانوں کے لیے موسیقی کا کام کرے گی تاہم ایران کے ساتھ دوبارہ مذکرات نتین یاہو کے لیے ہضم کرنا مشکل ہوگا اس لیے اسرائیلی وزیر اعظم ممکنہ طور پر شام پر فضائی حملوں میں اضافہ کر دیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ نے اس معاہدے میں جس قدر پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں کیا بائیڈن ان کا سدباب کر پائیں گے اور خاص کر ایسی صورت میں جب واشنگٹن کا قریبی حلیف شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہو؟ اور یقینا ایسی صورت میں ایران کا پہلا مطالبیہ ہی یہی ہوگا کا شام پر فضائی حملے بندد کیے جائیں اور بائیڈن ایک تجربے کار کھلاڑی کے طور پر پس پردہ چینلز کے ذریعے ایران کو یہ باور کروا سکتے ہیں کہ وہ شام سے اپنے افواج کو واپس بلوا لیتے ہیں جس سے اسرائیل کو شام پر حاصل شدہ فوقیت ختم ہوجائے گی
ایران ایٹمی معاہدے کی واپسی
ٹرمپ کی جانب سے بے بہا پابندیوں اور مشکلات کے بعد ایران بہتر شرائط پر اس معاہدے کی تجدید کر سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ نے نہ صرف اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کیا بلکہ ایران کو معاشی طور پر دیوار کے ساتھ لگانے بھی کوشش کی اس لیے ایران یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کا حق ہے کہ اب امریکہ کے ساتھ بہتر شرائط پر اس معاہدے کی تجدید نو کرے۔ درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطے میں ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا اور اس بات کو ایرانی ہارڈ لائنرز نے کیش کیا جس کی وجہ سے آج ایرانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہارڈ لائنر کے خیالات سے متفق نظر آتی ہے اور اب ایران کے الیکشن سر پر آن پہنچے ہیں اور امریکہ کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ وہ اس ڈیل کی تجدید کر کے اصلاح پسندوں کی مدد کرے۔
ایران یقینی طور پر 2015 کے ایٹمی معاہدے پر واپس جائے گا مگر اس مرتبہ ایران بالائی سطح سے مذاکرات کرے گا کیونکہ ٹرمپ کے دورحکومت میں ایران نے شدید مشکلات کا سامنا کیا ہے اور اب وہ دوبارہ دھوکا نہیں کھانا چاہے گا کیونکہ اس کے لیے اب امریکہ قابل اعتبار نہیں رہا ہے۔ نتین یاہو جانتے ہیں کہ اگر اس معاہدےمیں واپس لایا جاتا ہے تو اس کی تمام تر سیاسی سرمایہ کاری بے سود جائے گی۔ یاہو یہ بھی جانتے ہیں کہ ایران کے ساتھ امریکہ نئی شرائط پر اس معاہدے کی تجدید کر سکتے ہیں جس سے اسرائیل کے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔
آنے والے سالوں میں ایران نہ صرف اپنی معیشت کو از سر نو تعمیر کر سکتا ہے بلکہ اپنے ہتھیاروں میں بھی جدت لا سکتا ہے اور ٹرمپ کے تخلیق کردہ ایرانی خوف کو حقیقی شکل دے سکتا ہے تاہم بائیڈن کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایران کے ساتھ اس طرح کا رویہ اسے واقعی ایک حقیقی خوف بنا دے گا۔ بی بی کو فون کرنے میں جو بائیڈن کی ہچکچاہٹ جان بوجھ کر یا طے شدہ نہیں تھی کیونکہ مشرق وسطی میں سابقہ صدر کی خارجہ پالیسی کی گتھیاں کو سلجھانے میں اتنا وقت لگنا یقینی تھا۔ بائیڈن ممکنہ طور پر اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی کو مستقبل کی جارجہ پالیسی کے لیے اہم نکتہ سمجھتے ہیں۔
یہ فون کال محض” ہیلو ہم یہاں موجود ہیں اور آپ تک جلدی پہنچنے کی کوشش کریں گے” سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔آنے والے ہفتوں میں امریکہ اور اسرائیل کے مابین سخت بات چیت اور ان تعلقات کا اصل ٹیسٹ سامنے آئے گا کیونکہ بائیڈن کو اسرائیل کی محبت کو ایک طرف رکھنا پڑے گا اور ایران کے معاملے میں حقیقی پالیسی اپنا پڑے گی۔
اتوار، 21 فروری 2021
شفقناا ردو
ur.shafaqna.com