جمعرات کے روز پاکستانی حکام نے تین گمشدہ کوہ پیماؤں بشمول محمد علی سد پارہ کی تلاش کو سرکاری طور پر ختم کرنے اعلان کر کرکے تینوں کوہ پیماؤں کو مردہ قرار دے دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ اعلان محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کیا جس کے بعد دو ہفتوں سے جاری اس تکلیف دہ بحث کا اختتام ہو گیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کوہ پیمائی کی تاریخ کا طویل ترین سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔
محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے پابلو موہر پریٹو پانچ فروری کو کےٹو کو سر کرنے کی مہم کے دوران لاپتہ ہوگئے تھے۔ ان تین کوہ پیماؤں کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب آخری مرتبہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ کے ٹو کو موسم سرما میں پہلی مرتبہ گزشتہ ماہ نیپالی کوہ پیماوں کی ٹیم نے سر کیا تھا۔
ہم ہم یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ تینوں کوہ پیما کیوں بخیریت واپس نہ آسکے تاہم بعض ماہرین نے اس کی ممکنہ وجوہات بیان کی ہیں کہ ایک دفعہ ان سے رابط کٹنے کے بعد کیا کیا صورتحال پیش آ سکتی ہے۔
کیا وہ واپس اترتے ہوئے گر گئے؟
ساجد سدپارہ وہ آخری آدمی تھے جنہوں نے ان تینون کوہ پیماوں کو دیکھا۔ ان کے مطابق یہ تینوں کوہ پیما پہاڑ کی چوٹی کے قریب بوٹل نیک تک پہنچ چکے تھے جس کا مطلب ہے غالبا وہ چوٹی تک بھی پہنچ گئے ہوں گے اور ساجد سدپارہ کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ سب سے زیادہ حادثات اس وقت پیش آتے ہیں جب کوہ پیما اتر رہے ہوتے ہیں کیونکہ کوہ پیما تھک چکے ہوتے ہیں۔ اور توازن کی معمولی سے غلطی ان کو گہری کھائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔
وہ لوگ جو سد پارہ کو جانتے تھے وہ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ وہ ایسی فاش غلطی کر سکتے ہیں۔ اس بات کا شک ہے کہ شاید ان کے ایک یا دونوں ساتھیوں کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو اور ان کو بچانے کی کوشش میں وہ بھی اس حادثے کا شکار ہو گئے ہوں۔ آرنلڈ کوسٹر جو کہ سرما میں کےٹو سر کرنے کی مہم کے سربراہ تھے کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں وہ چوٹی تک پہنچنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور اس دوران انہیں سخت سردی نے آ لیا یا ان کے پاس آکسیجن ختم ہوگئی اور وہ اترتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے۔
وہ جانتا تھا کہ وقت اس کے ساتھ نہیں ہے
کوسٹر کا کہنا ہے کہ تینوں کوہ پیماوں کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہو گاکہ محفوظ موسم کے خاتمے کا وقت قریب ہے اور ان کے پاس چند گھنٹے بچے ہیں۔ اس لیے اس وقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے انہوں نے چوٹی تک پہنچنے کی کوشش تیز کر دی ہو گی۔ اس کے بعد نصف رات تک ہوا کی رفتار 30 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گئی ہو گی اس لیے چوٹی تک پہنچنے کے امکانات بہت کم رہ گئے ہوں گے۔
کیا انہوں نے شمار شدہ خطرہ مول لیا؟
کے ٹو مہم کے ایک ڈاکٹر ٹومس روٹر کا کہنا ہے کہ چوٹی تک طے شدہ وقت پر نہ پہنچنے کی تمام تر ذمہ داری کوہ پیماوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہمیں ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاپیے کہ پم اوپر جانے کی حالت میں ہیں یا نیچے جانے کی۔صرف یہ نہیں کہ آپ نے بس اوپر جانا ہے اور میرے خیال میں آپ کے سب سوالوں کا یہی جواب ہے۔ وہ تینوں واپس کیوں نہیں چلے آئے۔ تاہم روٹر کا کہنا ہے کہ اس بات کو فرض کرنا مشکل ہے کہ وپ تینوں موسم سرمامیں کے ٹو کو سر کرنے کے چیلنجز سے ناواقف تھے کیونکہ وہ تینوں تجربہ کار کوہ پیما تھے۔
ڈاکٹر ٹومس کا کہنا تھا کہ وہ جان سنوری کق اچھی طرح جانتے ہیں وہ ایک عقل مند اور تجربہ کارکوہ پیما ہیں۔ میرے خیال میں چوٹی پر پہنچنے کی کوشش میں ان پر تھکاوٹ غالب آ گئی ہو گی کیو نکہ وہ پہلے ہی بیس کیمپ پر دوماہ کا عرصہ گزار چکے تھے۔
علی سد پارہ کے مینجر اور قریبی دوست راو احمد کا کہنا ہے کہ سدپارہ بے بہا تجربے کے حامل تھے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ چوٹی سر کرنے کاجذبہ ان کے منطقی فیصلے پر حاوی ہو جاتا۔ ان کے سابقہ ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ وہ خطرے کی صورت میں واپسی کو ترجیح دینے والے تھے۔
ان کا کہنا تھا ہم کسی بھی کوہ پیما کے ماضی کے رویے کو مدنظر رکھتے ہیں۔ میں ماضی کی ایسی بہت ساری مثالیں دے سکتا ہوں جب علی سد پارہ چوٹی کے قریب پہنچ چکے تھے مگر حالات کے پیش نظر انہوں نے واپسی کو ترجیح دی۔ احمد کا کہنا تھا کہ جس وقت علی سدپارہ کیمپ تھری سے چوٹی کی طرف روانہ ہو رہے تھے ان کی فون پر ان سے بات ہوئی تھی اور وہ مطمئن تھے کہ ان کی ٹیم ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہے۔
ہفتہ ، 20 فروری 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com