وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا ہے کہ جب حکومت میں آئے تو ریکارڈ خسارے کا سامنا تھا، ملکی معیشت آج مثبت اور درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی وبا کے باجود ملک میں معاشی استحکام آ رہا ہے۔ ملک کی معیشت مثبت سمت میں جا رہی ہے۔ ملک میں اکانومی جتنی بڑھے گی بینکوں کو بھی اتنا ہی فائدہ ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ ڈالر 160 روپے پر گیا تو سب چیزیں مہنگی ہوئیں۔ کرنسی گرتی ہے تو سب سے زیادہ بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔ مالی خسارے کا سب سے زیادہ اثر ملک کی کرنسی پر ہوتا ہے۔ کرنسی کی قدر کم ہونےسے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ غریب عوام اور تنخواہ دار طبقے کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تیل مہنگا ہونے سے دیگر چیزوں پر اثر پڑتا ہے۔ کرنسی گرنےسے درآمدی گھی اور دالیں مہنگی ہوئیں۔ وزیر اعظم صاحب نے اشیائے ضروریہ کے مہنگے ہونے کا فارمولا تو سمجھا دیا مگر غریب عوام کو یہ نہیں سمجھا پائے کہ ڈالر کس کے دور میں 160 پہ گیا اور کیوں گیا؟ پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو کس کے دور حکومت میں بڑھیں اور کیوں بڑھیں؟
خیر یہ تو ایک ایسی بحث ہے جس کا اختتام ہی کوئی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے جس قدر ڈھٹائی سے یہ جھوٹ بولا ہے کہ ملک کی معیشت درست سمت میں گامزن ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم صاحب کے اس بیان سے صرف دو روز قبل ہی حکومت نے آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے بعد چھ بلین ڈالر کی امداد بحال کروا لی ہے۔ اور اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میعشت درست سمت میں گامزن ہے تو پھر اس بیل آوٹ پیکج کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ یہ بات تو ایک اصول تو روز مرہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ کسی کے آگے ہاتھ تبھی پھیلاتے ہیں جب آپ کی جیب خالی ہوتی ہے اور اگر آپ کی جیب بھری ہوئی ہو تو پھر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا چہ معنی دارد؟ پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر معیشت درست سمت میں گامزن ہے تو پھر اشیائے خوردنی آئے روز غریب عوام کی دسترس سے دور کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ اس درست سمتی معیشت کا ثمر آخر ایک مزدور تک کب پہنچے گا؟
وزیر اعظم جب درست سمت کی بات کرتے ہیں تو یہ بتانا کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کن شرائط پر اور کیوں آئی ایم ایف سے قرضہ مانگا ہے؟ واضح رہے کہبین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کے مرکزی بینک کی جانب سے قومی کرنسی پر کنٹرول کی پالیسی ختم کرے اور پاکستانی روپے کی قدر کا تعین فری مارکیٹ کے ذریعے کیا جائے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو خسارے میں رہنے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کرنا اور توانائی اور زراعت کے شعبوں میں سبسڈی بھی ختم کرنا چاہیے۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو بجلی، گیس اور توانائی کے دیگر ذرائع کی قیمتیں پھر بڑھانا ہوں گی۔ آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی اپنی آمدنی بھی بڑھانا ہوگی۔ وزیر اعظم صاحب نے مہنگائی کی یہ وجہ کیوں نہیں بتائی۔
آئی ایم ایف سے قرض کی فراہمی کا معاہدہ بڑی شرائط کے بعد بحال ہوا ہےجس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑے گاکیونکہ حکومت اخراجات کو کم کرنے، بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور اضافی ٹیکس عائد کرنے پر متفق ہوگئی ہے۔پیٹرولیم قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے کو بیل آؤٹ منصوبے کی بحالی کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی مکمل تفصیلات ابھی تک غیر واضح ہیں لیکن تمام زیر التوا جائزوں کو کچھ شرائط کے نفاذ کے تحت منظور کیا گیا ہے۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے قرضوں کا مسئلہ نہایت گھمبیر ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ملکی معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، حکومتی سطح پرتو بلند بانگ دعوے اپنی جگہ ، لیکن زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ایسی عوام دوست پالیساں ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو مستقبل میں ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکیں اور ہمیں کاسہ گدائی لے کر عالمی مالیاتی اداروںکے پاس نہ جانا پڑے، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت ملک کے اندر واپس لانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ سیاستدانوں، بیوروکریسی کی طر ف سے باہر کے بینکوں میں جمع شدہ دولت اس قدر زیادہ ہے کہ ہمارے ملک کے بیرونی اور اندرونی تمام قرضے ادا ہو سکتے ہیں لہٰذا حکمرانوں کو یہ رقم ملک کے اندر واپس لانے کے لیے ہرممکن کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
ٰیہاں ایک بات اور بھی بہت اہم ہے کہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک آئی ایم ایف کو آخری حربے کے قرض دینے والے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن پاکستان حکام اسے پہلی ترجیح کے طور پر دیکھتے ہیں اور جب بھی مالی بحران ہوتا ہے تو پھر عالمی اداروں کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کو اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں شاذ و نادر ہی کامیابی نصیب ہوئی ہے جس نے کبھی بھی ملک کے مفادات کے لئے کام نہیں کیا اور معاشی صورتحال کو مزید خراب بناسکتی ہے۔ گزشتہ دوسال سے عوام یہی سن رہے ہیں کہ معیشت صحیح راہ پر گامزن ہے،اگرچہ یہ قرض معیشت کو تیز تر کردے گا لیکن اس سے عام شہریوں پر بوجھ بڑھ جائے گا جو پہلے ہی مشکل سال گزار چکے ہیں۔پاکستان کی معیشت نے نہ ہونے کے برابر ترقی کی ہے ، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی اب بھی موجود ہے۔ حکومت کو اس بار پر غور کرنا چاہیے کہ حکومتی بیانات اور زمینی حقائق میں تضاد کیوں ہے ۔
اتوار، 21 فروری 2021
شفققنا اردو
ur.shafaqna.com