پاکستان میں کرونا وبا کی آمد کے ساتھ ہی سمارٹ لاک ڈاؤن بھی ساتھ ساتھ ہی لاگو ہوگیا۔ اگرچہ شروع شروع میں پاکستانی عوام کا رویہ بالکل عمومی تھا” کرونا کچھ بھی ںہیں ہے ، حکومت محض توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے، امریکہ ایک وائرس کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کی کوشش کر رہا ہے ، الغرض طرح طرح کی کہانیاں سامنے آئیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے ہی اس کو چینی وائرس کہہ کر ان تھیوریز کی بنیاد رکھی اور اس خطرے کو چھوٹا کر کے دکھانے کی کوشش کی۔ سابق امریکی صدرکے اس رویے کابھر پور ساتھ دیگر بائیں بازو کے مقبولیت پسند رہنماؤں بھی بھی دیا جسن میں برازیل کے بولسنارو، فلپائین کے ڈیوٹرٹ کے علاوہ ہمارے اپنے مقبول رہنما عمران خان بھی شامل تھے۔ اب جب کہ کرونا وبا کی ویکسین منظر عام پر آگئی ہے تو اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نسلی اقلیتیں اور معاشرے کے غریب طبقے اس ویکسین کو مذہبی بنیادوں اور سازشی تھیوریوں کی وجہ سے رد کرر ہے ہیں۔ جب کہ المیہ یہ ہے کہ ہر معاشرے میں یہی دو طبقے اس وبا کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ ان سازشی تھیوریوں میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
۔ اس ویکسین کے ذریعے وہ لوگوں میں مائیکرو چپ ڈال ددیں گے تاکہ عوام کو ہر وقت نظر میں رکھا جاسکے اور انہیں اپنے کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
۔ بین الاقوامی ادویہ ساز اندسٹری نے یہ وبا پیسے کمانے کے لیے بنائی ہے اور ابھی تک انہوں نے اپنی ویکسین کو مکمل طورپر ٹیسٹ نہیں کیا اور عوامی صحت کو مدنظر رکھے بغیر وہ اس کو منافع کے لیے بیچ رہے ہیں۔ اور حکومتیں اس سازش میں شریک ہیں۔
اب ان سازشی تھیوریوں کا ایک نظر جائزہ لیتےہیں۔ مائیکرو چپ والی تھیوری کافی پرانی ہے ۔ یہ تھیوری امریکی آزادی پسندوں بلکہ اب تو دیگر بہت سارے ممالک کے سیاسی موضوعات کا حصہ بھی بن چکی ہے۔ تمام دیگر سازشی تھیوریز کی طرح یہ تھیوری ایک جائز خدشے پر مشمتل ہے تاہم کارپوریشنوں اور حکومتوں کو عوام کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے لیے چپ داخل کرنےکی چنداں ضرورت نہیں وہ یہ سب ہمارے موبائل اور سمارٹ فونز کے ذریعے پہلے سے کر رہی ہیں۔ درحقیقت سمارٹ فون جاسوسی کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں کیونکہ یہ آرام سے بتا دیتے ہیں کہ آپ کو کیا پسند ہے، کون پسند ہے اور کن کو ووٹ کرنا پسند کریں گے۔ پرائیویسی کے بارے میں ہمارے خدشات بجا ہیں مگر ان خدشات میں مائیکرو چپ کا کوئی کردار نہیں ہے۔
بانھ پن والی سازشی تھیوری بھی بہت مشہور ہے اور پاکستان میں پولیو ویکسین کی ناکامی اور آئیوڈین ملے نمک کے پیچھے بھی اسی تھیوری کا ہاتھ ہے ۔ درحقیقت پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ خطرہ مردانگی کو لاحق ہے ۔ پاکستان جیسے معاشروں میں جو مردانہ غالب معاشرہ ہے وہاں پر مردانگی کے مسائل دنیا کے دیگر سبھی مسائل سے زیادہ اہم ہیں ۔ درحقیقت مسئلہ مردانگی سے زیادہ اپنی غالبیت اور عورت کو اپنے قابو اور دباؤ میں رکھنے کا ہے ۔ پس پاکستان جیسے معاشرے کے لیے یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ یہ ویکسین بانجھ پن کا شکار کر دیتی ہے اور بس پھر کوئی اس کے قریب آنے کی ہمت نہیں کرے گا۔
تجارتی لالچ کی تھیوری ان تھیوریز میں سب سے زیادہ مضبوط ہے ۔ بلاشبہ کارپوریشنیں منافع کے اصول پر کام کرتی ہیں اور اکثر اوقات یہ حکومت کے ساتھ مل کر یہ کام کرتی ہیں۔ نقصان دینے والی ان مصنوعات کی تاریخ فارمولا دودھ سے ، زرعی کیمیکلز اور گھٹیا کوالٹی کی پلاسٹک تک پھیلی ہے اور یہ تجارتی اداروں کی لالچ اور بھوک کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی انتہائی غیر ذمہ داری کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ تاہم اس راز کے بارے میں بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بائیو میڈیکل ریسرچ کی بنیاد سرکاری یونیورسٹیاں ہیں اور کرونا بھی ان میں شامل ہے۔ فائزر ویکسین کے مؤجد ڈاکٹرز، اوزلم ترکئی، اوگر ساہن اور کیٹالن کریکو تمام پنسلوانیا کی یونیورسٹی میڈیکل سنٹر مینز کے رکن ہیں ۔ ان تمام نے یونیورسٹی کی مدد سے بائیو ٹیک کو ایک الگ وینچر کے طور پر قائم کیا ہوا ہے۔ اسی طرح آکسفورڈ کی آسٹرا زانیکا بھی ایک سرکاری خرچے پر کی جانے والی ریسرچ کے نتیجے پر وجود میں آئی ہے۔
جہاں تک این ویکسینز پر یقین کرنے کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم ان پر یقین کیوں کریں؟ دیگر اکیڈمکس کی طرح میں بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سائنس پر سوال ہوسکتا ہےا ور یہ سوال ہونا چاہیے۔ تاہم میں اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوں کہ سائنسدان انتہائی عز، محبت اور محنت سے اپنا کام کرتے ہیں ۔ تاہم جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ سائنسدان کس قدر محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں وہ ان پر یقین کیوں کریں؟
بہت ساری ریسرچ سٹڈیز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ افریقن امریکی اور ہسپانوی معاشرے تباہی کی وارننگز کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے اور اس کی وضاحت اس طرح سے کی جاتی ہے کہ ان معاشروں میں علیحدگی کی سوچ، نسل پرستی کا سامنا اور ان کے خلاف معاشرتی بربریت ہے ۔ اگر ریاست کے ساتھ لوگوں کا روزمرہ تعلقات کا تجربہ تلخ اور منفی ہو تو پھر یقینا لوگ ریاست کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے اور پھر جب ویکسین اور وبا کی بات تو پھر لوگ ایک ایسی ریاست پر کیسے یقین رکھ سکتے ہیں جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتی ہو۔ اسی طرح برطانیہ میں مسلم آبادی کی صورتحال ہے جس کو اس کی مذہبی شناخت کی وجہ سے مکمل طور پر تنہا کر دیا گیا ہے اور ایسی صورت میں جب ریاست ان سے اچانک محبت کا اظہار شروع کر دے تو وہ اس پر کیسے یقین کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے میڈیا اور سوشل میڈیا مواصلات کے اہم ذرائع ہیں ۔ میڈیا، سیاست اور معاشرتی روابط کے ذریعے ہی افراد کو معاشرے کا یک جا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ سازشی تھیوریاں سیاست کے منافی ہیں کیوں کہ پہلے تو یہ ہمیں اصل سازشوں سے گمراہ کرتی ہیں اور یہ اصل سازشیں طاقتور طبقے کی طرف سے تیار کی جاتی ہیں ۔ لوگ گھروں اور خاندانوں میں تنہا ہوجاتے ہیں ۔ بالکل ماحولیاتی تباہ کاریوں کی طرح ہم جانتے ہیں کہ یہ تباہ کاریاں معاشرے کے گہرے مسائل کی علامت ہیں اسی طرح یہ تھیوریاں بھی سیاسی علیحدگی کی علامت ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کر کےکہ لاکھوں افراد خود کو اکیلا کیوں محسوس کرتے ہیں آپ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو زیادہ جڑا ہوا، سیاسی طور پر ہم آہنگ اور محفوظ ہو۔
اتوار، 14 مارچ 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com