ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ نواز اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جنگ سخت اور طویل ہوتی جارہی ہے۔۔ پی ڈی ایم کے پہلے جلسے سے لے کر سینٹ انتخابات تک وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے جب کہ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کا مؤقف اس حوالے سے خاصا نرم ہے۔ ڈسکہ انتخابات ہوں ، تحریک عدم اعتماد ہو یا سینٹ کے انتخابات ہو مسلم لیگ ن کی قیادت نے مسلم اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کا حمایت کار اور دھانددلی کے ڈائریکٹر ٹھہرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اوپری سطح کے حلقوں میں اس حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور متعدد مرتبہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کھلے بندوں کہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں لہذا انہیں سیاست میں ملوث نہ کیا جائے تاہم مسلم لیگ ن کی قیادت کا بیانیہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے گرد گھوم رہا ہے جس کے ملک اور جمہوریت کے لیے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مریم نواز اور نواز شریف کا شروع دن سے ہی عمران خان کے بارے میں یہ مؤقف رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات میں نقب لگا کر انہیں اقتدار میں لایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ عمران خان کے لیے سلیکٹڈ اور ان کو لانے والوں کے لیے سلیکٹرز کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس جنگ میں اس وقت تیزی دیکھنے میں آئی جب حال ہی میں مریم نواز نے مقتدرہ پر الزام لگایا کہ ان کے سینٹرز کو فون کالز کے ذریعے دھمکایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو ووٹ نہ دیں۔ مریم نواز کا یہ دعوی اس وقت سامنے آیا جب سینٹ الیکشن کے چئیرمین کے انتخابات میں صرف ایک دن باقی تھا۔ انہوں یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہیں فون کال کر کے کہا گیا ہے کہ آج کی تقریر کے بعد وہ کریک ڈاؤن کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کی شکست کے فورا بعد مسلم لیگ ن کے ایک رہنما طلال چوہدری نے بلاول بھٹو ذرداری پر طنز کر تے ہوئے کہ کہا کہ ” مزہ آیا نیوٹرل کا” جس کا مطلب ہے کہ بلاول نے سینٹ انتخابات سے قبل کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے اور وہ سینٹ انتخابات جیت جائیں گے۔ طلال چوہدری کے اس بیان سے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں میں پلنے والی اسٹیبلشمنٹ مخالف سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ان الزامات کے ساتھ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ایک اہم رنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ اگر مریم نواز کو کچھ ہوا تو وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے بلکہ مشرقی پاکستان کا ری پلے ہوگا۔ جاوید لطیف کا یہ بیان انتہائی خوف ناک ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ن لیگ کس قدر خوفناک انداز میں سوچ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے پاس اس بات کے کیا شواہد ہیں کہ مریم نواز کی جان کو اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ ہے؟کیا یہ خطرہ دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے نہیںہوسکتا؟ کیا یہ خطرہ پاکستان دشمن ملک کی طرف سے نہیں ہوسکتا کہ پاکستان میں انارکی پھیلائی جائے؟ پھر سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کے لیے پاکستان سے زیادہ ان کے رہنما اہم ہیں؟ یقینا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس ملک سے کس قدر مخلص ہے؟ اور مشرقی پاکستان والے بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم لیگ ن کس طرح پنجاب کو پاکستان سے توڑنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہاں پر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مریم نواز بے نظیر بھٹو سے اور ذوالفقار علی بھٹو سے بڑی رہنما ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو مریم نواز نہ تو اس کیلیبر کی رہنما ہیںاور نہ ہی اس ملک کے لیے کوئی ایسی خدمت ہے کہ انہیں اس ملک سے آگے دیکھا جائے۔
جاوید لطیف کے بیان پر آرٹیکل چھ ضرور لگانا چاہیے کیونکہ انہوں نے ملک توڑنے کی بات کی ہے ۔یقینا قوموں کے لیے رہنما قیمتی ہوتے ہیںمگر اس قدر قیمتی بھی نہیںہوتے کہ ان پر ملک کو قربان کر دیا جائے۔ مسلم لیگ ن کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنی جگہ گو کہ ایسا کبھی نہیںہوا کہ فوج پر کسی سیاسی حکومت کی سرپرستی کا الزام نہیںلگا۔ یہی الزام مخالفین نواز شریف کی جیت اور دورحکومت کے دوران بھی لگا چکے ہیں اور فوج پر یہی الزام پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت اور اس کے ساتھ فوج کے اچھے تعلقات پر بھی لگ چکا ہے اور اب یہی الزام عمران خان کی جیت اور ان کے فوج کے ساتھ اچھے تعلقات پر لگ رہا ہے تو فوج پر تو ہر دور میں ایسے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ مریم نواز کی زندگی کو خطرہ ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر جو بات جاوید لطیف صاھب نے کی ہے اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ ن لیگ اس ملک کے ساتھ کبھی مخلص تھی اور نہ ہوگی۔
اتور، 14 مارچ 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com