اسلام آباد: حکومت نے ایک ایسے منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت آئندہ 2 برس میں کم از کم تین مراحل میں ملک بھر میں بجلی کے بیسک نرخوں میں فی یونٹ مجموعی طور پر 5.36 روپے (34 فیصد سے زیادہ) اضافہ ہوگا۔
سرکلر ڈیبٹ منیجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) کو وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کی زیرصدارت توانائی کی کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) کے اجلاس کے دوران منظور کیا گیا۔
اجلاس میں وزیر توانائی عمر ایوب خان، وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی تبیش گوہر، ندیم بابر اور ڈاکٹر وقار مسعود خان اور متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنوں کے اعلی عہدیدار شریک ہوئے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی نے ’سرکلر قرضوں کے موثر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے پاور ڈویژن کی پیش کردہ سمری کی منظوری دی‘۔
اس میں مزید کہا گیا کہ اجلاس میں ’مربوط سی ڈی ایم پی 2021 کی سمری پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے جس میں مالی سال 2020-21 سے مالی سال 2022-23تک تک کے 3سالہ دورانیے کا احاطہ کیا گیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقہ کار اور اقدامات کی وضاحت کی گئی ہے۔
اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ سرکلر کی روانی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک عملی منصوبے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
سی ڈی ایم پی کی سمری کے مطابق اوسط یکساں نرخ بتدریج 21.04 روپے فی یونٹ ہوجائے گا (ٹیکس ، محصول ، محصولات اور بل میں اضافے کو چھوڑ کر) جو فی یونٹ 15.68 روپے ہے۔
اس کے علاوہ جولائی 2022 میں اضافی 176 ارب ڈالر پیدا کرنے کے لیے ٹیرف ریبیسنگ کے ذریعے 1.76 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا۔
سی ڈی ایم پی نے وزارت توانائی اور بجلی کے ریگولیٹر نیپرا کو پابند کیا ہے کہ وہ جون، جولائی 2021 اور جولائی 2022 میں تین چھوٹ دینے والے نرخوں کے بارے میں نوٹی فکیشن جاری کرے۔
پاور ڈویژن نے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کی بحالی میں بہتری لانے کا وعدہ کیا ہے جس میں تقریبا 5.73 فیصد کی ہے جس نے 2 برس میں مجموعی طور پر 204 ارب روپے وصول کیے۔
اس نے اگلے 2 برس میں 1130 ارب روپے کی بچت کے لیے سسٹم کے نقصانات کو 2.12 فیصد کم کرنے کا بھی اعادہ کیا ہے۔
سمری کے مطابق حکومت رواں مالی سال کے دوران گردشی قرضوں میں لگ بھگ 4 ارب روپے کی بچت کرے گی۔
اس کے بعد مالی سال 2022 میں 28 ارب روپے اور مالی سال 2023 میں 35 ارب روپے کی رقم شامل ہے۔
سمری میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ مالی سال 2020 میں سرکلر ڈیٹ میں 5538 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا جس سے جون 2020 کے آخر تک قرض بڑھ کر 2 ارب 15 کھرب روپے ہوگیا جو جون 2019 میں ایک ارب 12 کروڑ روپے تھا۔
پاور ڈویژن نے کہا کہ سرکلر قرض رواں مالی سال کے دوران 436 ارب روپے، مالی سال 2022 میں 878 ارب روپے، مالی سال 2023 میں ایک کھرب 25ارب روپے تک بڑھ جائے گا۔
کے-الیکٹرک کی فروخت پر تعطل کو ختم کرنے کیلئے سعودی ٹائیکون کا دورہِ پاکستان
اسلام آباد: ابراج کیپٹل گروپ کے سربراہ عارف نقوی کے زوال کے بعد حکومت کے ساتھ کے الیکٹرک کے کاروباری تعلقات کے مستقبل پر تعطل کے دوران سال 2005 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن خریدنے والا سعودی گروپ دوبارہ منظر عام پر آگیا۔
سعودی عرب کی الجومیہ ہولڈنگ کمپنی کے مالک شیخ عبدالعزیز حماد الجمیح نے صبح سویرے پاکستان پہنچنے کے بعد خاصہ مصروف دن گزارا۔
انہوں نے صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، وزیر خزانہ، وزیر توانائی اور وزیر نجکاری کے علاوہ کچھ اہم اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں میں تمام اہم متعلقہ وزارتوں کے سینیئر عہدیداران بھی موجود تھے۔
وہ کراچی میں بھی آج ایک مصروف دن گزاریں گے اور شام میں اپنے ملک واپس جانے سے قبل اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سلسلہ وار ملاقاتیں کریں گے۔
انہوں نے یہ دورہ کے-الیکٹرک انتظامیہ، اس کے کچھ غیر ملکی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے حکومت کے ساتھ ماضی کی بھاری بھرکم قابل ادا اور قابل وصول رقوم کے تصفیے اورکمپنی کی شنگھائی الیکٹرک کو فروخت سمیٹ مختلف معاملات پر ہونے والے رابطوں کے سلسلے کے بعد کیا۔
باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ ہائی پروفائل شخصیت نے ایک بزنس پروگرام، کے-الیکٹرک کو درپیش مشکلات اور ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ سیکیورٹی فنڈز کے مبینہ غلط استعمال پر لندن میں عارف نقوی کی گرفتاری کے بعد الجومیہ گروپ اپنے آپ کو کے-الیکٹرک کا حقیقی مالک قرار دے رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق سعودی کاروباری شخصیت نے حکام کو الجومیہ گروپ کی سرمایہ کاری حکمت عملی سے آگاہ کیا اور کہا کہ پاکستان میں ابتدائی سرمایہ کاری دونوں ممالک کے عوام کے مابین مضبوط بھائی چارے کے باعث ہوئی اور وہ اب بھی کے-الیکٹرک کو درپیش مشکلات دور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے حکام کو بتایا کہ گروپ کے پاس سرمایہ کاری کے بڑے فنڈز ہیں جو خسارے میں چلنے والے اداروں کو حاصل کرنے کے بعد ان کی تشکیل نو کر کے انہیں منافع بخش اداروں میں تبدیل کرتے ہیں۔
بظاہر شنگھائی الیکٹرک کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب کے-الیکٹرک کو ایک تکنیکی ٹیم کے ذریعے چلانے کا وقت آگیا ہے۔
خیال رہے کہ کے-الیکٹرک کی سال 2005 میں نجکاری سے لے کر اب تک 15 سالوں میں الجومیہ گروپ نے اس میں سرمایہ کاری کی ہے، سعودی ٹائیکون اس وقت کے-الیکٹرک بورڈ آف ڈائریکٹر کے پہلے چیئرمین بھی رہے تھے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے کے الیکٹرک اور دیگر سرکاری اداروں کے 3 کھرب روپے کے مالیاتی دعووں اور ان کے مخالف دعووں کا تصفیہ کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
دوسری جانبوفاقی سیکریٹریز اور کمپنیوں کے سربراہان گزشتہ 5-6 سالوں سے اس تصفیے سے متعلق تنازعات میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں۔
اس کے نتیجے میں کئی سال سے کے-الیکٹرک کے اکثریتی حصص کی شنگھائی الیکٹرک کو ممکنہ منتقلی تعطل کا شکار ہے بلکہ مسائل کا شکار یہ کمپنی ملک کے سب سے بڑے شہر میں اپنا نظام بہتر بنانے کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی جس سے صارفین موسم گرما میں متاثر ہوتے ہیں۔
منبع: ڈان نیوز