وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اگر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بند کرنے سمیت کورونا وائرس سے متعلق سخت اقدامات نہیں اٹھاتا تو ہم خود فیصلے کریں گے۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں انسٹی ٹیوٹ آف انیمل ہیلتھ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ حکومت سندھ نے کئی برس قبل مرغی اور کٹے دینے کا منصوبہ شروع کیا تھا اور تھر میں خواتین کو بکریاں دے رہے ہیں لیکن ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بل گیٹس نے یہ منصوبہ دیا تھا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی تھی اور ان سے بات ہوئی کہ نیاز اسٹیڈیم کو بحال کردیا جائے تاکہ ٹیسٹ میچز، پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سمیت تمام میچز کھیلے جائیں، اس میں تاخیر ہوئی ہے لیکن یہ منصوبے کا حصہ ہے۔
مراد علی شاہ نے این سی او سی اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری دو تجاویز تھیں کہ آپ لاک ڈاؤن نہ کریں، کراچی پورٹ اور کاروبار کھلا رکھیں لیکن انٹر سٹی عوامی ٹرانسپورٹ دو ہفتوں کے لیے بند کریں تو اس کو مسترد نہیں کیا گیا جبکہ میری اس تجویز کو یوں پیش کردیا کہ میں نے لاک ڈاؤن کی تجویز دی تھی جس کو مسترد کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی لاک ڈاؤن کے حوالے سے ایک سوچ ہے اور میں نے انہیں یاد دلایا کہ آج سے ایک سال قبل حکومت سندھ نے یہ اقدام اٹھایا تھا جس پر ہمیں بہت کچھ سننا پڑا حالانکہ باقی تینوں صوبوں نے اس پر عمل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اللہ کے کرم سے ہم بچے ہوئے ہیں اور یہی ابتدائی اقدامات تھے، ہم نے اپنے دیہاتوں میں بھی ایسے اقدامات اٹھائے جبکہ بھارت نے غلطی کی تھی کہ لوگوں کو بسوں اور ریلوں میں بھر کر لوگوں کو دیہاتوں کی طرف جانے دیا جس سے کورونا پھیل گیا لیکن ہم نے بسوں کو بند کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے بچے رہے ہیں کہ ہم نے جہاز اور ریلیں بھی بند کیے اور یہی فرق تھا، اس وقت بھی میں نے یہی تجویز دی تھی جو مسترد نہیں ہوئی، اسی لیے این سی او سی نے کہا تھا کہ اس کو دیکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کیا ہے، اگر این سی او سی کوئی قدم نہیں اٹھائے گا تو ہم اپنی طرف سے خود فیصلے کریں گے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میری دوسری تجویز تھی کہ اس وقت خطے میں ہمارا ملک ویکسی نیشن میں بہت پیچھے ہے، بنگلہ دیش، افغانستان اور بھارت سب ہم سے آگے ہیں اور کم از کم ہم سے دس گنا آگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے کہا ویکسی نیشن مہم کو زیادہ جارحانہ کریں، رجسٹریشن سب کی کریں تاکہ ڈیمانڈ کا پتہ چلے اور ڈیٹا موجود ہوگا کہ ڈیمانڈ کیا ہے اور کہاں کہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ ویکسین نہیں لگوانا چاہتے ہیں ان کے نام رجسٹریشن میں آرہے ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں ویکسین لگوائیں جبکہ جو ویکسین لگانا چاہتے ہیں ان سے کہہ رہے ہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ میں نے پولیس، رینجرز اور دیگر فورسز کو بھی ویکسین لگانے کی تجویز دی تھی کیونکہ ہمیں ان کی مدد درکار ہوگی اور وہ خود بھی محفوظ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ میری تجویز تھی کہ ویکسین کے لیے عمر کا لحاظ تو رکھا جائے گا لیکن مختلف بیماریوں میں لاحق افراد کو بھی ترجیح دی جائے چاہے وہ 20 برس کا ہو اور اس تجویز کو سراہا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ملک کے کچھ حصے ہیں جہاں 25 فیصد شرح ہے اور کچھ میں ایک فیصد بھی نہیں ہے، جہاں ایک فیصد یا 5 فیصد شرح ہے وہاں زیادہ مسئلہ نہیں ہوگا۔
قبل ازیں صوبائی وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے براہِ راست چین سے کین سینو ویکسین کی خریداری کے لیے 50 کروڑ روپے مختص کردیے ہیں جو سنگل ڈوز ویکسین ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ خود کو ویکسین لگوائیں، ہمارے ہاں ویکسی نیشن کا عمل بہت سست ہے کیوں کہ ہمیں کم تعداد میں خوراکیں موصول ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں 175 ویکسی نیشن سینٹرز برائے بالغان مقرر کیے گئے ہیں جس میں کراچی میں 29، حیدرآباد میں 8 جبکہ دیگر اضلاع میں فی ضلع 5 سے 6 ویکسی نیشن مراکز موجود ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے ‘اسپٹنک فائیو’ ویکسین فروخت کرنے کی اجازت دے دی
سندھ ہائی کورٹ نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی استدعا مسترد کرتے ہوئے نجی کمپنی کو روسی کورونا ویکسین ‘اسپٹنک فائیو’ کی فروخت کی اجازت دے دی۔
سندھ ہائی کورٹ میں کورونا ویکسین اسپٹنک فائیو کی ریلیز سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے توہین عدالت کی درخواست پر جواب جمع کرادیا جس میں کہا گیا کہ 31 مارچ کو ویکسین ریلیز کردی تھی۔
عدالت نے ڈریپ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ویکسین کی ریلیز میں کوئی رکاوٹ ڈالی تھی؟
ہائی کورٹ نے کہا کہ ویکسین جتنی جلدی لوگوں کو لگ سکتی ہے لگ جائے کیونکہ ایسی صورتحال میں ویکسی نیشن روکنا مناسب نہیں ہے۔
ڈریپ حکام نے کہا کہ ہم نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔
عدالت نے مزید استفسار کیا کہ کیا قیمت مقرر ہونے کے بعد معاملہ حل ہو جائے گا؟ جس پر درخواست گزار نجی کمپنی کے وکیل نے جواب دیا کہ نہیں قیمت فکس ہونے سے بھی معاملہ حل نہیں ہو گا۔
کمپنی کے وکیل نے اس موقع پر عدالت میں سوال اٹھایا کہ اگر ویکسین کی قیمت 8 ہزار روپے مقرر ہوجاتی ہے تو کیا ہم فروخت کر سکتے ہیں یا نہیں۔
ڈریپ کے وکیل نے جواب دیا کہ جب ویکسین کی درآمدات کی اجازت دی گئی تھی تو اس وقت بھی قیمت مقرر نہیں کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ویکسین کی قیمت فکس کرنے کا معاملہ ابھی چل رہا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت ویکسین فروخت کرنے سے روکنے نہیں جارہی، آخر حکومت اب تک کیا کر رہی تھی، قیمت فکس کیوں نہیں کی گئی۔
ڈریپ کے وکیل نے استدعا کی کہ آئندہ ہفتے تک ویکسین کی فروخت روک دیں، اس دوران ہم قیمت فکس کردیں گے۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو جلدی کرنی چاہیے کیونکہ کورونا کی تیسری لہر آچکی ہے۔
ڈریپ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر یہ ویکسین فروخت کر رہے ہیں تو کس کو فروخت کر رہے ہیں جس پر نجی کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ہم پرائس ڈیٹا دینے کو تیار ہیں۔
درخواست گزار کمپنی نے کہا کہ 10 لاکھ خوراکوں کا معاہدہ کرلیا تھا جس میں سے 50 ہزار منگوالی تھیں، کمپنی نے ویکسین کی قیمت 12 ہزار 226 روپے مقرر کر رکھی ہے اور ہر شہری کی مرضی ہے وہ کتنے پیسوں میں ویکسی نیشن کراتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے غیر ملکی کمپنی سے 20 لاکھ ویکسینز کا معاہدہ کر رکھا ہے اور معاہدے کے مطابق غیر ملکی کمپنی سے یہ ویکسین لینی ہے ورنہ بھاری نقصان ہوگا۔
عدالت نے کورونا ویکسین اسپٹنک فائیو کی فروخت کی اجازت دیتے ہوئے درخواست کی مزید سماعت 12 اپریل تک ملتوی کردی۔
گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے ایک رکنی بینچ کو ہدایت کی تھی کہ وہ کووڈ-19 ویکسین کی درآمدات کے سلسلے میں ڈریپ کی جانب سے نجی کمپنی کو دیے گئے استثنیٰ کی واپسی کے خلاف حکم امتناع کا فیصلہ کرے۔
دلائل کے دوران ڈویژن بینچ کو بتایا گیا کہ ڈریپ نے 2 فروری کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کو واپس لے لیا ہے جس کے تحت اس نے 6 ماہ کی مدت یا مارکیٹ میں ویکسین کی قیمتوں کی دستیابی تک ہسپتالوں اور اداروں میں فروخت کے لیے کووڈ-19 ویکسین کی درآمد کے لیے استثنیٰ دیا تھا۔
اس حوالے سے مزید دلیل دی گئی کہ اس طرح فرم نے کووڈ-19 ویکسین (اسپٹنک -فائیو) کی 10 لاکھ خوراکیں فی یونٹ 45 ڈالر کی شرح سے درآمد کے لیے غیر ملکی فروخت کنندہ / برآمد کنندہ کے ساتھ ویکسین کی فراہمی کا معاہدہ کیا اور ویکسین کی مقدار پہلے ہی کراچی پہنچ چکی ہے لیکن یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا۔
25 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے قانونی فرم کے عبوری حکم پر ویکسین کی درآمد کی اجازت دینے والے مذکورہ نوٹیفکیشن کو منسوخ کردیا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دیگر قانون افسران اور وکلا کے ہمراہ دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ استثنیٰ کا نوٹیفکیشن واپس لینے کے بعد ڈریپ نے کووڈ-19 ویکسین کی قیمتیں طے نہیں کی تھیں اور معاملہ زیر التوا ہے اور قیمتوں کا تعین کیے بغیر مذکورہ ویکسین کی فروخت غیر قانونی ہو گی۔
انہوں نے استدلال کیا کہ ڈریپ ایک ہفتے میں ویکسین کی قیمت مقرر کرے اور ایک ہفتے میں اس سلسلے میں پیشرفت پر رپورٹ کرے۔
فارما کمپنی کے وکلا نے کہا کہ ایسے استثنیٰ کی بنیاد پر فرم نے معاہدہ کیا اور جب کھیپ کراچی پورٹ پہنچی تو انہوں نے اچانک اس نوٹیفکیشن کو واپس لے لیا جو بلاجواز ہے۔
درخواست دہندگان کے وکیل نے کہا کہ قیمتوں کے تعین سے قبل فرم کو ویکسین فروخت کرنے سے روکنا چاہیے، فرم کے وکیل نے دلیل دی کہ لاٹ کی ریلیز کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے باوجود کراچی میں فیڈرل ڈرگ انسپکٹر متعلقہ دستاویزات پر دستخط نہیں کر رہے، لہٰذا جب تک یہ مشق مکمل نہیں ہوتی اس وقت تک ویکسین کی فروخت ممکن نہیں۔
واضح رہے کہ نجی کمپنی اے جی پی لمیٹڈ نے روس سے اسپوتنک ویکسین درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور 18 مارچ کو ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں پاکستان پہنچ گئی تھیں۔
اسپوتنک ویکسین کو سوویت دور کی سیٹلائٹ کا نام دیا گیا ہے اور اسے کلینیکل ٹرائل سے کئی ماہ قبل ہی روس میں استعمال کی منظوری دے دی گئی تھی جس پر ابتدائی طور پر ماہرین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
البتہ 20 ہزار شرکا پر کیے گئے ویکسین کے نئے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کووڈ-19 کی یہ ویکسین 90 فیصد افادیت کی حامل ہے۔
منبع: ڈان نیوز