ایسا لگ رہا ہے کہ اپنے اقتدار کے اس دور میں عمران خان سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر عمل پیرا ہیں اور دو رخی حکمت عملی کو اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اول دائیں بازو کو خوش کرنے والے بیانات اور کشمیر اور بھارت کی پالیسی پر اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کا سودا کرنے پر ایوب خان کو مورد الزام ٹھہرایا ، شراب پر پابندی لگائی اور کراچی میں جواء خانوں پر پابندی عائد کر دی۔ یہ بات واضح ہے کہ بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے حوالے سے بہت ساری کہانیاں گھڑی گئیں اور بہت ساری اشاعتوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان فوج کی قیادت بھارت کے حوالے سے کمزور ہے۔ حکومت کے حامی صحافی اپنی تازہ ترین دعووں میں یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی سارک سمٹ کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔ واضح رہے کہ اس مرتبہ سارک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہورہی ہے اور اس حوالے سے حکومت کے بعض عہدیداران اس حوالے سے من گھڑت کہانیاں سنا رہے ہیں۔
بالفاظ دیگر جب ایک اشاعت کے بعد دوسری اشاعت ایک ہی موضوع کو دہرائیں کہ نریندرا مودی اور عمران خان کی ملاقات کے پیچھے چیف آف آرمی سٹاف کا ہاتھ ہے اور یہ موضوع اسلام آباد سے جاری ہونے والے اخبار فنانشل ٹائمز سے شروع ہو تو اس سے یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کشمیر اور بھارت پر پاکستان کے اہم اور بنیادی مفادات پر سمجھوتہ کر رہی ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان بھارتی مقبوضہ کشمیر پر بھارتی فوج کے مظالم پر سینہ سپر ہیں۔ اس سارے کھیل کا مقصد عوام کے سامنے فوجی قیادت کی کمزوری کو دکھانا ہے کہ بھارت کے معاملے پر فوجی قیادت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی آرمی چیف جو بھارت کے معاملے میں نرمی اختیار کرے گا وہ جنگ کی صورت میں عوام کی جانب سے فوج کی حمایت کو خطرے میں ڈالے گا۔ اور منطقی طور پر کوئی آرمی چیف بشمول جنرل قمر جاوید باجوہ کبھی بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔ پس واضح تصویر یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی بھی بامعنی مفاہمت ممکن نہیں ہے کیونکہ بھارت پاکستان کے حوالے سے تین منفی نظریات رکھتاہے۔
ہفتہ، 10 اپریل 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com