دو ماہ قبل ایک وحشیانہ حملے میں 11 افراد کی شہادت کا صدمہ سہنے والی ہزارہ قوم کو مسلسل پاکستانی عوام کی حمایت کی ضرورت ہے۔ 2013 میں کوئٹہ کے ایک بھرے پرے سنوکر کلب کو دو خود کش حملوں سے اڑا دیا گیا تھا جس میں 92 افراد جاں بحق اور 121 زخمی ہو گئے تھے۔ دہشت گرد گروہ لشکر جھنگوی نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس سانحے کے صرف ایک ماہ بعد پانی کی ایک ٹینکی میں 70 سے80 کلوگرام بارود بھر کربلوچستان کے ہزارہ ٹاون میں پہنچایا گیا جس سے 90 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں سے اکثریت شیعہ ہزارہ کی تھی۔
ان وحشیانہ حملوں کی دکھ اور تکلیف کے سبب ہزارہ برادری کے افراد منفی ڈگری گریڈ خی سخت ٹھٹھرتی سردی میں لاشوں کےساتھ دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور مطالبات کی منظوری تک اپنے پیاروں کو دفنانے سے انکار کر دیا۔ حکومتی مشینری نے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کروائی اور جاں بحق افراد کو دفنانے کی درخواست کی جسے مان لیا گیا۔ 8 سال بعد اسی طرح کے ایک اور تکلیف دہ حملے کے بعد ہزارہ دوبارہ 11 لاشوں کے ساتھ سخت سردی میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور مطالبہ کیا کہ جب تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا وہ اپنے پیاروں کو نہیں دفنائیں گے۔ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے والے ان 11 مزدوروں کو 3 جنوری 2021 کو کوئٹہ کی ایک کان کے باہر سے اغوا کرکےوحشیانہ سلوک کے بعد شہید کر دیا گیا تھا۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 2013 کی طرح ان حملوں کے بعد عوام کی جانب سے شدید رد عمل آیا اور لوگ ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی اور احتجاج کے لیے سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے۔ تاہم عوام کی یہ حمایت اب دم توڑ چکی ہے مگر ہزارہ کی تکالیف اپنی جگہ پر قائم ہیں۔
حالیہ حملے کے بعد ایک غیر منافع بخش تنظیم گریف ڈائریکٹری جو کہ دہشت گردی کے شکار افراد کی حمایت کرتی ہے نے ایک مباحثے کا انعقاد کیا جس کا عنوان دشت گردی کے شکار افراد تک پہنچنا اور ان کی حمایت تھا۔ اس مباحثے میں سابق و مرحوم ایم این اے سید علی رضا عابدی کی والدہ مس صبیحہ اخلاق، کنیرڈ کالج فار وومن کی شعبہ سیاسیات کی سربراہ عاصمہ حمید اعوان، فری لانس صحافی عمائمہ احمد، گریف ڈائریکٹری کی سربراہ ڈاکٹر فاطمہ علی حیدر اور ہزارہ برادری کی ایک رکن مس شازیہ خان شامل ہیں۔ ان پینالیسٹس نے پاکستان میں دہشت گردی کے مختلف پہلووں پر بحث کی اور ہزارہ برادری کے لیے اجتماعی اور انفرادی حمایت کے حصول پر بھی بات چیت کی۔
مس شازیہ نے واضح کیا کہ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کو لاحق خطرات ہزارہ برادری کے لیے ایک مستقل پریشانی کا سبب ہیں۔ ہزارہ دہشت گردی اور ریاست کی سیکورٹی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف تنہائی بلکہ مسلسل خطرات کا شکار ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہزارہ کے لیےسفر ، کاروبار، اعلی تعلیم تک رسائی اور زندگی کی سہولیات کی فراہمی ناپید ہوچکی ہے۔ ہزارہ تاجروں کو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور کر دیا گیا جبکہ ہزارہ کے علاقے میں تعلیمی اداروں میں باہر کے رہائشی کام کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جس کا مطلب ہےکہ ہزارہ کی نسلیں معاشی اور تعلیمی غربت، تنہائی اور شدید ٹراما کا شکار ہیں۔نفسیاتی اور ٹراما مدد کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہزارہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہےاور سب سے زیادہ ہزارہ کی نوجوان نسل ہوئی ہے۔ ہزارہ نوجوانوں میں ذہنی امراض اور خودکشی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
آپ کیسے مدد کر سکتے ہیں
ان تکلیف دہ حالات میں بھی ہزارہ مکمل طور پر پرامن رہے ہیں۔ ہزارہ ایک محنتی قوم ہے جس نے محنت کر کےملک کی ترقی میں اپناحصہ ڈالا ہے۔ جس کی ایک بڑی مثال پاکستان فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد موسی خان اور پاکستان کی پہلی فائٹر پائلٹ خاتون سائرہ بتول ہیں۔ بہت سارے ایسے طریقے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے ہزارہ بہن بھائیوں کی تکالیف میں مدد کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ لوجسسٹیکل مدد ہے۔ چونکہ ہزارہ سفراور ٹرانسپورٹ کی مشکلات کا شکار ہیں اور بعض اوقات وہ کاروباری کے لیے سامان مہیان کرنے میں بھی ناکام ہوجاتے ہیں اس لیے پورے پاکستان سے لوگ اگر انہیں ان کے کاروبار کو دوبارہ جمانے میں مدد دیں تو ان کے لیے بہت بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ ایس سارہ فاؤنڈیشن کی مثال بھی سامنے رکھ سکتےہیں جس نے جعفر آباد میں ووکیشنل سینٹرز بنائے ہیں اور مقامی افراد کو سلائی مشینیں اور کمپیوٹرز فراہم کیے ہیں۔ یہ ایسے کام ہیں جن کی مددسے ہزارہ کی مددکی جاسکتی ہے۔ مس شازیہ کاکہنا تھاکہ ہزارہ کو مچھلی پکڑناسکھاؤ نہ کہ مچھلی کھانا۔
ایک اور طریقہ متاثرہ خاندانوں کی مالی مدد ہے تاہم مس شازیہ نے اس حوالے سے خبرار کیا کہ عطیات کو کسی تیسرے فرد یا شخص کے حوالے کرنے گریز کریں کیونکہ اکثر اوقات یہ امداد متاثرہ خاندانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس لیے بہتر ہے کہ ایسی تنظیموں تک پہنچا جائے جو اس حوالے سے اچھا ریکارڈ رکھتی ہیں اور انہیں پیسے یا دیگر اشیائے ضروریہ دی جائیں تاہم یہ بات یقینی ہو کہ یہ رقوم ان تنظیموں کے رجسٹرڈ اکاؤنٹس کے ذریعے سے بھجوائی جائیں۔ اگر لوگ براہ راست متاثرہ خاندانوں سے بات چیت کر کے امداد دینا چاہتے ہیں تو یہ سب سے بہترین عم ہوگا۔ امداد کے دیگر طریقوں میں نفسیاتی او رتعلیمی مدد بھی شامل ہے ۔ہزارہ برادری کو ٹراما تھیراپسٹس کی اشد ضرورت ہے ۔ اسی طرح اساتذہ، ایجوکیٹرز اور زبانوں کے انسٹرکٹرز کی بھی ضرورت ہے جو ان کے اداروں میں ان کے بچوں کو پڑھا سکیں۔ اگر ایسی تنظیمیں ہیں جو اس طرح کی امداد فراہم کرتی ہیں تو وہ گریف ڈائریکٹری سے رابط کر کے اس عمل کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔
ہزارہ برادری کا قتل عام ہمارے ملک، ہماری ذات اور ہمارے ضمیر پر ایک بدنما داغ ہے۔ اگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ اس ظلم و جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور میڈیا، سوشل میڈیا اور احتجاجوں کے ذریعے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں تاکہ ان کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہوسکے۔
منگل، 13 اپریل 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com