پاکستان اور بھارت دوایسے ایٹمی ممالک ہیں جوایک دوسرے پر اکثر اوقات غراتے نظر آتے ہیں اورایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ان کے منہ سے اکثر کف بہتا دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ممالک کی یہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اربوں ڈالر کا اسلحہ ہاتھ سےنہ جانے دیں اور ایک دوسرے کو ہر روز نت نئے میزائل تجربوں اور رافیل جیسے طیاروں دے دہلائے رکھیں ۔ ایک دوسرے کی نیند حرام کرنے کے لیے لیے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے والے ان ممالک کی عوام کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مغرب کا کام ہی اسلحہ بیچنا اور تصادم پیدا کرناہے تصادم جس قدر سخت ہوگا اسلحہ اس قدر زیادہ بکے گا اور پاکستان اور بھارت کے معاملے میں بھی بالکل ایساہی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک عوام کی بہتری کے نام پر مغرب کے آگے پھیلاتے دکھائی دیتے ہیں اور پیسے ملنے کے بعد انہی پیسوں سے استعماری قوتوں سے اسلحہ خرید کر ایک دوسرے پر غراتے نظر آتے ہیں۔ اور دونوں ممالک میں عوام کی جو حالت ہے وہ اس قدر پتلی ہے کہ نہ تو کھانے کوروٹی ہے اور نہ بیماری کے لیے دوا۔ ایک ملک کی تو حالت یہ ہے کہ لیٹیرینیں تک نہیں دستیاب اور دوسرے کی حالت یہ ہے کہ تعلیم بھی دنیا سے مانگ کر دے رہا ہے۔
اگرچہ ان دونوں ممالک کی حالت اور ان کے عوام کی دگرگوں حالت دنیا سے چھپی ہوئی نہیں تاہم کرونا نے ان دونوں ممالک کو جس قدر ننگا کیا ہے کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ مودی کے رائزنگ انڈیا کی یہ حالت ہے کہ کرونا وبا اس کے کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ دنیا سے مانگ کر سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے ویکسین بنائی اور وہ بھی پوری نہیں پڑ رہی۔ پورے ملک میں کرونا کے مریضوں کے لیے دستیاب بیڈز کی قلت کایہ عالم ہے کہ دہلی کے ہسپتالوں میں بستر تک دستیاب نہیں ہیں۔ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے آگے ملک کا صحت کا نظام ناکام ہوگیا، اسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی، لوگ آکسیجن کی عدم فراہمی پر جان سے جانے لگےہیں۔ اس صورتحال پر بھارتی عدالت مودی سرکار پر برہم ہوگئی، آکسیجن کی فراہمی یقینی بنانے کا حکم جاری کر دیا۔ دریں اثنا چین نے بھارت کو کورونا وبا پر قابو پانے کے لیے مدد کی پیش کش کردی۔ بھارت میں تیزی سے بڑھتے کرونا کیسز کے بعد اسپتالوں کے باہر مریضوں کی لائن لگ گئی، اسپتالوں میں آکسیجن کم پڑ گئی، میتوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی جگہ کم پڑنے لگی ہے۔ ملکی دارالحکومت دہلی، ہریانہ، اتر پردیش، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں کو آکسیجن کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یہ ریاستیں گزشتہ چند روز سے مرکزی حکومت سے مدد کی اپیل کرتی رہی ہیں تاہم اب تک ان اپیلوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ دہلی کے چیف منسٹر کیجری وال کا کہنا تھا، ’’دہلی میں آکسیجن کی شدید قلت ہے۔ کیا یہاں آکسیجن کا پلانٹ نہیں ہے، اس لیے دہلی کے لوگوں کو آکسیجن نہیں ملے گی۔ ہماری رہنمائی کریں کہ جب دہلی آنے والی آکسیجن کو دوسری ریاستیں روک لیں، تو ہم مرکزی حکومت کے کن حکام سے رابطہ کریں۔‘‘
یہ حالت اس ایٹمی ملک کی ہے جو فخر سے کہتاپھرتا ہے کہ وہ دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی طاقت ہے ۔ جو کبھی رافیل طیارے خریدتاہے توکبھی روس سے ایس -400 دفاعی نظام خریدنے کے سودے کرتاپھرتا ہے۔ یہ اس ملک کی حالت ہے جو جمہوریہ ڈے پراپنی فوجی گاڑیوں پر بڑے بڑے میزائلوں کی نمائش کرتا دکھائی دیتاہے اور دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے کرتا ہے۔ ابھی تو یہ آغاز ہے ابھی تو خدانخواستہ حالات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ یہ بات بجا ہے کہ کرونا نے دنیا کی ایٹمی طاقتوں کی قلعی بھی کھولی ہے تاہم جو حالت بھارت کی ہے وہ کسی اور ایٹمی ملک کی نہیں ہے۔ پاکستان میں ابھی تک بھارت والے حالات تو نہیں پیدا ہوئے لیکن یہاں بھی ہر طرف سے اموات کی خبریں ہی آ رہی ہیں۔ ہر طرف لوگ اسی مشکل میں پھنسے کورونا سے جنگ لڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ہمیں احتیاط کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ خدانخواستہ حالات بالکل ہی ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں۔ بھارت جیسا ملک اگر اس تباہی میں اپنے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو رہا ہے تو ہمارے پاس تو ویسے ہی وسائل کی کمی رہتی ہے۔
یقینا بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے بھی اسلحے دوڑ میں پوراپورا مقابلہ کیا ہے اوربھارت کے ایٹمی دھماکوں کے کچھ عرصہ بعد ہی ساتویں ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے تاہم پاکستان کی بھی حالت یہ ہے کہ ملک میں کرونا کیسز کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکی ہے اور ویکسین کاکہیں اتا پتا نہیں۔ اس ایٹمی ملک کی اپنی صلاحیت تو یہ ہے کہ ویکسین بنانا تو درکنار ویکسین خریدنے کے بھی پیسے نہیں اور کوشش ہے کہ جہاں کہیں سے فی سبیل اللہ ویکسین مل جائے وہیں سے لے لی جائے۔ خیر مانگے کی ویکسین کتنی پوری ہوسکتی ہے اور اس وقت تک 2200 ملین آبادی کے اس ملک کے پاس صرف 22 ملین کرونا ویکسین کی خوراکیں موجود ہیں جو آبادی کے پانچ فیص کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔ حکومت کے پاس کرونا ویکسین خریدنے کے پیسے نہیں ہیں اور پاکستان نے دنیا کا پہلا ملک ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے جس نے ویکسین کی فروخت بھی شروع کر دی ہے اور فروخت کے لیے قیمت جو مقرر کی گئی ہے وہ اس قدر ہے کہ ملک کی 30 فیصد آبادی کی پہنچ سے بھی دور ہے۔ یعنی نہ تو حکومت انہیں ویکسین فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی وہ خود ویکسین خریدنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے ایٹمی ملک کے وزیر اعظم صاحب نے فرمایا تھا کہ ” سکون صرف قبر میں ہی ہے”
پس اگر ان دو پڑوسی ممالک جو ہر وقت ایک دوسرے پر غراتے نظر آتے ہیں تجزیہ کیا جائے تو ایک کے پاس ویکسین نہیں اور دوسرے کے پاس آکسیجن نہیں جب کہ دونوں ممالک کے پاس 150 سے زائد ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں جن میں ہائیڈروجن بم جیسے مہلک ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یقینا دنیا ہنستی ہوگی کہ یہ کیسے ایٹمی ممالک ہیں اور کیسی انکی عوام ہے کہ ایک پاس ویکسین نہیں اور دوسرے کے پاس آکسیجن۔۔
جمعتہ المبار، 23 اپریل 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com