یورپی پارلیمان میں بھاری اکثریت سے منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سنہ 2014 میں پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر فی الفور نظرثانی کرے۔ یورپی پارلیمان میں جمعرات کو پیش کی جانے والی اس قرارداد جس کے حق میں 662 اور مخالفت میں صرف تین ووٹ ڈالے گئے، اس میں پاکستان کی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت کے قانون کی دفعات 295 سی اور بی کو ختم کرے۔ اس قرارداد میں حکومت پاکستان سے انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون میں بھی ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نہ کی جائے اور توہین رسالت کے مقدمات میں ملزمان کو ضمانتیں مل سکیں۔ کالعدم قرار دی جانے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرنے اور حکومت کی طرف سے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قراراداد کے بعد یورپی یونین نے ایک متفہ قرارداد پاس کی ہے جس میں پاکستان کو یورپی یونین کی طرف سے دیے گئے جی اس پی پلس سٹیٹس پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
آج مسلم دنیا میں بدنام بہت ساری دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں جیسا کہ مجاہدین، طالبان، داعش، القاعدہ، عسس، بوکو حرام اور دیگر بہت سارے جنگجو گرپوں کی تخلیق میں انہیں مغربی قوتوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے اپنے مقاصد کے لیے ان کو تخلیق کیا اور پھر ان کو امداد دی۔ اپنے مقاصد کے حصول کے بعد ، انہوں نے ان پر پابندیاں عائد کر دیں اور ان سے کنارہ کر لیا اور پھر ان پر دہشت گردی کا الزام بھی عائد کرنا شروع کر دیا۔ افغان جنگ میں پاکستان امریکہ، نیٹو اور مغربی طاقتوں کا صف اول کا اتحادی تھی اور اس کی وجہ سے پاکستان نے بے بہا انتہا پسندی، عدم برداشت، دہشت گردی، گن کلچر، منشیات کلچر اور دیگر کئی موزی وباؤں کا سامنا کیا جبکہ ان کے پھیلاؤ میں تمام تر ہاتھ مغربی طاقتوں کا تھا۔ پاکستان درحقیقت ایک متاثرہ ملک ہے۔
پاکستان کی قیادت موجودہ صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے اور جمہوری اقدار میں رہتے ہوئے حکومت کی عملداری قائم کرنے میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔ پاکستان میں حالیہ بدامنی اس کا اندرونی معاملہ ہے بالکل ایسے ہی جیسا اکثر امریکہ یا یورپ میں ہنگامے یا احتجاج پھوٹ پڑتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کیپٹل ہل پر ہونے والی قتل وغارت، جارج فلائیڈ کے قتل پر پھوٹ پڑنے والے ہنگامے، اور اسی طرح مغربی دنیا میں دیگر مسائل پر احتجاج ایک عمومی بات ہے اور ان ممالک کا اندرونی مسئلہ ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک کی طرح اپنے اندرونی مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے ان احتجاجوں پر یورپین یونین کا واویلا پاکستان کے اندرونی مسائل میں مداخلت کے برابر ہے۔ اس تناظر میں یورپین یونین کی قرارداد ہرگز ایک قابل تعریف عمل نہیں اور اس سے عام پاکستانی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور یہ یورپین یونین کے تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک انتہا پسند گروپ کی جانب سے پیش کی گئی یہ قرارداد ہرگز پورے یورپین یونین کی نمائندگی نہیں کرتی۔
اب جبکہ پاکستان انہی مغربی ممالک کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اسے بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے، ایسے میں اس طرح کی قراردادیں پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یورپین یونین اپنی قرارداد پر غور کرے گی اور اسے واپس لے لی گی۔ یورپین یونین کی تمام پارلیمنٹیں جوکہ امن سےمحبت رکھنے والی ہیں اس پر ضرور غور کریں۔ یہاں یہ بات بھی ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ پوری مغربی دنیا میں حالیہ عشرہ میں اسلاموفوبیا ایک بین الاقوامی مظہربن چکا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے حالیہ خطاب میں اس کو اجاگر بھی کیا ہے اور پھر اسی طرح کی ایک قراداد اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی منظور کی ہے ۔ پوری مسلمان دنیا مغربی ممالک کی جانب سے ہونے والی گستاخی پر کبیدہ خاطر ہے اور پوری مسلمان دنیا میں اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ۔ مسلمان نہ صرف دیگر مذاہب کی عزت کرتے ہیں بلکہ جواب میں اپنے مذہب کی بھی ویسی ہی عزت کا مطالبہ کرتےہیں جو ہرگز بے جا نہیں ے۔
یورپین یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے خاتمے کی دھمکی کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے یورپین یونین کے خدشات دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کے حالیہ اجلاس میں کیا گیا ۔ اس اجلاس میں عمران خان صاحب نے یہ عہد کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم النبین ہیں اور اس بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی توہین رسالت کے قوانین پر کوئی بات کی جائے گی۔ اس لیے کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے وہ یورپین یونین کے خدشات دور کریں گے۔ اس ملاقات میں اس بات کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ توہین رسالت کے قوانین کا جی ایس پی پلس سٹیٹس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یورپین یونین کی اس قرارداد پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ بات انہتائی افسوس ناک ہے کہ یورپین یونین پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین کے پس منظر اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے ۔ پاکستان کے نظام عدل اور اس کے ملکی قوانین پر یورپین یونین کے غیر ضروری بیانات قابل مذمت ہیں۔
یوروپین یونین کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تمام تر ایسے مسائل کو بات چیت سے حل کرے کیونکہ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں یورپین یونین کے خدشات دور کرنے کے لیے تیارہیں۔ پاکستان یہ چاہتاہے کہ وہ باہمی دلچسپی کے امور پر یورپین یونین کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے اس طرح کا یکطرفہ فیصلہ ہر گز فائدہ مند نہیں ہوسکتا۔ پاکستان یورپین یونین کے ساتھ ہر ممکن تعاون چاہتا ہے تاہم یورپین یونین کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
جمعتہ المبارک، 7 مئی 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com