بین الاقوامی طاقتوں کے مابین بات چیت کی بات ہو یا مقامی سیاسی کھلاڑیوں کے مابین ، طاقت کا توازن ہی اس بات چیت کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ جو جتنا طاقتور ہوگا وہ مفاہمت کی بات چیت میں اتنے ہی زیادہ مطالبات منوانے کی پوزیشن میں ہوگا۔ اگر پڑوسی ملک افغانستان کی بات کی جائے تو آپ امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کے لیے بات چیت بھی چل رہی تھی تاہم دونوں طرف سے اپنی اپنی طاقت کے مظاہرے کا عمل بھی چل رہا تھا اور شاید مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز بھی اس اصول سے بخوبی واقف ہیں جب ہی گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بہت معنی خیز جملہ کہا کہ ” مزاحمت ہوگی تو مفاہمت ہوگی”۔ یعنی کسی بھی طاقتور مخالف کو بات چیت کی میز تک لانے کے لیے مزاحمت بنیادی جزو ہے اور یہی کچھ بین الاقوامی منظر نامے میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہاگر مزاحمت ہوگی تو ہی مفاہمت ہوگی کیونکہ جہاں آپ نے کمزوری دکھائی وہاں آپکا دشمن آپ پہ حملہ کردے گا۔ ٹرے میں رکھ کر کبھی آپکو کوئی چیز نہیں ملتی، آپ کو اپنا حق لڑ کے لینا پڑتا ہے. ان کا کہنا تھا کہ طاقت کبھی کمزور سے بات چیت نہیں کرتی۔
مریم نواز نے جو کچھ کہا یقینا وہ ایک میچور سیاستدان کی سوچ ہے اور یہ بات انہوں نے محض کہی نہیں ہے بلکہ اس کا عملی طور پر مظاہرہ بھی کیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں مریم نواز کے تابڑ توڑ حملوں میں شاید پہلے سے زیادہ تیزی آئی۔ وہ ان حملوں کے لیے پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ شہباز شریف صاحب اپوزیشن کے ساتھ مفاہمتی مشن پر کام کر رہے تھے اور شہباز شریف پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے درمیان پل بنانے کی کوششوں میں مکمل طور سے ناکام نہیں ہوئے۔ دوئم پی ڈی ایم کی قیادت اگرچہ بظاہر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اتحاد میں واپسی کے لئے پرامید نہیں ہے لیکن اس نے غیر رسمی تعاون کا راستہ بھی بند نہیں کیا۔ بلاول بھٹو زرداری اور امیر حیدر ہوتی کی میڈیا گفتگو سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں اگرچہ اپوزیشن اتحاد میں تو دوبارہ شامل نہیں ہوں گی لیکن باہمی تعاون اور اشتراک کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس صورت حال کو کسی حد تک شہباز شریف کی سیاسی ہنر مندی قرار دیا جاسکتا ہے۔
یقینا پیپلز پارٹی کی زیرک اور جہاندیدہ قیادت نے اس امر کو محسوس کیا ہوگا کہ جو جنگ مریم نواز جس انداز سے لڑ رہی ہیں یقینا بات چیت کا تمام تر توازن ان کے حق میں ہوگا اور وہ محض ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور اگر وہ شطرنج اور طاقت کے اس کھیل سے باہر ہوگئے تو نہ تو بلاول کا کوئی مستقبل ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کا۔ اپوزیشن پارٹیوں میں اختلافات کا آغاز موجودہ حکومت سے نجات حاصل کرنے کے طریقہ پر ہوا تھا۔ اب بھی پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ختم کرنا ہی سب سے اہم ہے لیکن سب سیاسی عناصر اب یہ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے لگے ہیں کہ دو سال بعد انتخابات متوقع ہیں۔ ان دو سالوں میں کسی ایسی قومی تحریک کو منظم نہیں کیا جاسکتا جو حکومت کے زوال کا سبب بن سکے۔ نہ ہی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت تبدیل کر کے کوئی بھی قومی پارٹی مختصر مدت میں کچھ ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہوگی جس کی بنیاد پر وہ انتخابات میں عوام کی حمایت حاصل کرسکے۔ اس لئے مرکزی حکومت کے خلاف کوئی ’مہم جوئی‘ اب کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس وقت بہترین حکمت عملی یہی ہے جو مریم نواز صاحبہ نے اپنائی ہے۔
اگر پیپلز پارٹی اور اے این پی ایک مرتبہ پھر پی ڈی ایم کا حصہ بننے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو شاید بجٹ کے بعد پنجاب میں تبدیلی کی ایک نئی کوشش ضرور دیکھنے میں آ سکتی ہے تاکہ انتخابات کے دوران ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومتی ڈھانچے پر تحریک انصاف کا شکنجہ کمزور کر کے بہتر انتخابی نتائج کی امید کی جائے۔ اس تبدیلی کا انحصار البتہ اس بات پر ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کیا یہ دونوں تحریک انصاف کے سیاسی زوال کو حقیقت بنانے کے لئے تعاون پر آمادہ ہوں گے۔ ان میں سے ایک پنجاب کے سب سے مقبول سیاسی لیڈر ہیں اور دوسرے کی مرضی کے بغیر کوئی بڑی سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ اس سوال کا جواب اس سال کے آخر تک ہی مل سکے گا۔ تاہم شہباز شریف کی سیاسی سرگرمیاں اور کسی حد تک کامیابیاں اور نواز شریف کی مسلسل خاموشی معنی خیز ضرور ہے۔
مریم نواز کے مزاحمت اور مفاہمت کے بیانیے کے بعد یہ بات بھی طے ہے کہ وہ اس لڑائی میں مقتدرہ کو نیچا دکھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گی اور اس مقصد کے لیے نہ صرف سول سوسائٹی بلکہ میڈیا میں موجود اپنے ہمدرد عناصر کی مدد لینے کی بھی کوشش کریں گی ۔ حال ہی میں میڈیا کے چند بڑے ستونوں کی جانب سے جس طرح مقتدرہ پر تنقید کی گئی اور اس کو دھمکیاں دی گئیں اس سے یہ بات واضح ہے کہ مریم نواز اپنے تمام تر پیادوں سے مقتدرہ پر حملہ آور ہوکر اسے کمزور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ مقتدرہ اس کے جواب میں کی چال چلتی ہے اور کیا وہ بھی جواب میں مریم نواز کو اس قدر زک پہنچانے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں؟ اگر مقتدرہ مریم نواز کے خلاف بے بس ہے تو پھر عمران خان صاحب کو اپنا بوریا بستر گول کر لینا چاہیے کیونکہ ان کی رخصتی پر تو کوئی دو رائے نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ جیل جانے کے لیے بھی تیار ہوجائیں کیونکہ طاقت کی اس لڑائی میں اگر ن لیگ کا پلڑا بھاری ہوگیا تو مقتدرہ عمران خان کو قربانی کا بکرا بنانے سے ہرگز نہیں ہچکچائے گی۔
پیر، 31 مئی 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com