مقبوضہ مغربی کنارے کے سینکڑوں فلسطینی طلبہ کو غیر متشدد سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اسرائیل نے جیل میں بند کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے برزیٹ یونیورسٹی کے تین طلبہ کو جیل بھجوانے پر اسرائیل کا مقبوضہ فلسطین میں طلبہ اور کارکنان کے خلاف طاقت اور فوج کا متنازعہ استعمال ایک مرتبہ پھر زیر بحث آگیا ہے۔ روبیٰ آسی، شاتھا طویل اور لیان کید جو کہ ٹین ایج گرلز طلبا ہیں کو 14 سے 21 ماہ کی سزا ہوئی ہے اور انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے جس کی تصدیق خود یونیورسٹی نے بھی کی ہے۔ یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ ان طلبا کو ان کے نظریات کے اظہار اور ان کے اعتقاد کے علاوہ یونین میں انکے متحرک کردار کے الزامات کی بناء پر جیل میں ڈالا گیا ہے۔ حالانکہ ان طلبا نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے اور نظریات کا اظہار کوئی جرم نہیں ہے۔ یہ گرفتاریاں اور سزائیں اسرائیلی سیکورٹی فورسز اور پولیس کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہوئیں جو کہ گرین لائین کے دونوں طرف کیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ گرین لائن اسرائیل کو مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم سے الگ کرتی ہے۔
شیخ جراح سے جبری بے دخلیوں اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد فلسطینیوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا جس پر اسرائیل افواج نے بہت سارے فلسطیینیوں کو گرفتار کر لیا اور ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا عندیہ دیا جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے قابض اسرائیلی افواج کی نیت پر سخت شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ کوین میری یونیورسٹی لندن کے انسانی حقوق کے ایک پروفیسر نیو گورڈون کا کہنا ہے کہ ان فوجی عدالتوں کا مقصد ہر گز کسی جرم پر گرفتار کرنا نہیں ہے بلکہ عوامی مزاحمت کو خاموش کرانا اور اس کو کچلنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی نوآبادیاتی ذہن رکھنے والے ملک کے لیے مزاحمت سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے اور اسرائیل کو فلسطین کی مزاحمت سے ہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔
مغربی کنارہ جس میں 6۔2 ملین کے قریب فلسطینی بستے ہیں ، 1967 سے اسرائیل کے فوجی قوانین کے تحت چل رہا ہے ۔ حتی کہ جو اسرائیلی شہری فلسطینی حدود میں رہتے ہیں ان پر بھی ٹیکنیکلی فوجی قوانین ہی لاگو ہوتے ہیں مگر حقیقت میں کبھی ایسانہیں ہوا۔ اسرائیلی قانون سازوں نے صحت، ٹیکس اور الیکشن سے متعلق قوانین کو فلسطینی حصے یں بسنے والے یہودی آبادکاروں تک بڑھا دیا ہے مگر یہ قوانیں فلسطینیوں پر لاگو نہیں ہوتے حالانکہ دونوں ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں۔ سول حقوق کی اسرائیلی ایسوسی ایشن اے سی آر آئی نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے ہر لمحے یعنی مقدمے کی ابتدا سے فیصلے اور سزا تک فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔
حتٰی کہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کے لیے بھی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔ 1980 سے لے کر اب تک اسرائیل کی فوجی عدالتوں میں جو بھی اسرائیلی شہری لائے گئے ہیں وہ عرب شہری ہوں گے یا فلسطینی ۔ برطانیہ میں مقیم ایک چیرٹی وار اینڈ واںٹ کے مطابق گزشتہ پانچ دہائیوں سے فوجی عدالتوں نے آٹھ لاک کے قریب فلسطینیوں کے مقدمات کی سماعت کی ہے۔ مغربی کنارے کے اسرائیلی فوج کے کمانڈر کے پاس صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی تنظہم پر پابندی عائد کر دیں۔ پروفیسر گورڈن کا کہناہے کہ گزشتہ ایک سال میں 400 کے قریب فلسطینی تنظیمون اور این جی اوز پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اکتوبر 2020 میں اسرائیل نے برزیٹ کے بائیں بازو کے بلاک ڈیموکریٹک پروگریسو سٹوڈنٹ پول کو غیر قانونی تنظیم قرار دیا۔ پروفیسر گورڈن کا کہنا تھا کہ اگر چہ اسرائیلی فوجی عدالتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ان عدالتوں کی جانب سے فلسطینی تنظیمو کو دہشت گرد قرار دینے کے بین الاقوامی نقصانات ہیں۔ فوجی عدالتوں کے فیصلوں سے یورپین یونین کی جانب سے فلسطینی تنظیموں کی فنڈنگ اکثر رک جاتی ہے اور اس لیے یہ اسرائیلی فوجی عدالتیں کوشش کرتی ہیں کہ اسرائیلی تنظیموں کا امیج بطور دہشت گرد تںطیم سامنے لائیں۔