25 مئی 2021 کو جارج فلائیڈ کی پہلی برسی تھی۔ منی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ہاتھوں اس کا قتل نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں اس کی یاد سے منایا گیا۔ جارج فلائیڈ کے قتل سے ایک مرتبہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں سفید فام برتری پر بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس قتل کے بعد ” سیاہ فام زندگیاں معنی رکھتی ہیں” کے نعرے پوری دنیا میں گونجتے دکھائی دیے۔ اس نعرے نے نہ صرف افریقی امریکیوں کی مشکلات کو دنیا کے سامنے لایا ہے بلکہ یورپ اور آسٹریلیا میں ہونے والی اقلیتیوں کے مسائل بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں ۔
یہ بات اہم ہے کہ جارج فلائیڈ کی موت نے مغربی نسل پرستی کو کھول کر دنیا کے سامنے بیان کر دیا ہے تاہم اس نسلی امتیاز کے ساتھ ساتھ ایک اور امتیاز بھی ہے جو بہت زیادہ خطرناک ثابت ہورہا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس امتیاز کے خلاف باآواز بلند یہ نعرہ لگانا چاہیے کہ مسلمانوں کی زندگی معنی رکھتی ہے۔ غزہ سے آنے والی تشدد کی حالیہ تصاویر کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حماس اور اسرائیل کے مابین تنازعے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ فلسطینی صرف عرب اور مسلمان ہیں اور وہ اپنی سرزمین پر یہودی ریاست کے قیام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ فلسطینی سرزمین کے ارد گرد کھڑی اسرائیلی دیواریں فلسطینیوں کو تنہا اور محبوس کرنے کی یہودی پالیسی کا واضح ثبوت ہیں۔ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ ایک سرزمین پر فلسطینی اور یہودی دو الگ طرح کے طرز زندگی سے گزر رہے ہیں۔ کرونا ویکسین میں امتیاز اور اس کے اعدادوشمار سے اس بات بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ اگر کرونا ویکسین کے اعدادو شمار کی بات کی جائے تو رائٹرز کے مطابق فلسطینیوں کی 1۔5 فیصد آبادی کے مقابلے میں اسرائیل کی 3۔58 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی گئی ہے۔
اسرائیل اس طرز عمل کی صرف ایک مثال ہے ۔ اگر مغربی دنیا کے موجود طرز عمل کو دیکھا جائے تو مسلمانوں کے خلاف جابجا امتیاز نظر آتا ہے۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں جب ٹرمپ انتظامیہ نے سفری پانبدیاں عائد کیں تو اس کا سب سے پہلا نشانہ مسلمان ممالک تھے ۔ 17 مارچ 2021 کو اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا وباکی حد تک پھیل چکا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فرانس کس طرح سیکولرزم کی آڑ میں مسلمانوں کے عقائد اور ان کے طور طریقوں پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلمان خواتین اپنے ایمان کے حصے کے طور پر پردہ کرتی ہیں اور اس لیے وہ پسی ہوئی ہیں اور انہیں مغربی طرز پر اس ظلم سے آزادی دلانا لازمی ہے۔ مغربی ممالک کے حکمرانوں کی یہ غلط فہمی اور کج فہمی اکثر اوقات انسانیت کی تذلیل کا سبب بن جاتی ہے جیسا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ برقعہ پوش خواتین ایسے لگتی ہیں جیسے لیٹر بکس۔ یہ بات تاحال واضح نہیں ہے کہ انہیں اپنے اس بیان پر شرمندگی ہے یا نہیں تاہم حال ہی میں ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن نے ان کے ملک کا دورہ کیا ہے اور ہنگری بھی اسلامو فوبک نظریات میں صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل سے اٹلانٹک تک تعصب، غرور اور منافرت کی ایک لہر دیکھتے ہیں جو کہ پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ تعصب کی اس لہر میں ہم اور دوسرے کا ایک عمل دیکھا گیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف منافرت اور اسلاموفوبیا میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مغرب اس تعصب کو مزید ہوا دے رہا ہے۔ برطانیہ اور دیگر ممالک میں مسلم معاشرہ اپنے پروگراموں کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے رمضان میں بہت سارے ایسی تقریبات دیکھی ہیں جس میں افطار کے لیے دیگر مذاہب کے لوگوں کو دعوت دی گئی اور یہ عمل قابل تعریف ہے کہ غیر مسلموں نے ان پروگراموں مین شرکت کی اور یہ لوگ معاشرے میں تبدیلی کا اصل ذریعہ بنتے ہیں۔ بورس جانس جو پسند کرتے ہیں وہ اس بارے بات کر سکتے ہیں اور پھر انہیں انتخابات میں اس کے خوفناک نتائج بھی بھگتنا ہوں گے کیونکہ اسلاموفوبیا کھلم کھلا تعصب کی ہی قسم ہے۔
ہمیں اس بات پریقین رکھنا چاہیے کہ مسلمان ” سیاہ فام زندگیاں معنی رکھتی ہیں” جیسی تحریکوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اسلاموفوبیا کے سبب مسلمانوں کی زندگیوں اور ان کے ساتھ برتے گئے امتیاز کے اثرات کو ہرگز نہیں بھولنا چاہے۔ ہمیں اپنی اقدار کے لیے ہر صورت کھڑے ہوجانا چاہے۔ مسلمان خواتین حجاب اس لیے نہیں کرتیں کہ وہ کسی جبر کا شکار ہیں گلکہ اس لیے کرتی ہیں کہ یہ ان کی اقدار کا حصہ ہے اور اللہ کے احکام کی پیروی ہے۔ مسلمانوں کو ہرگز اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ ہم لوگوں کو کیسے دکھتے ہیں بلکہ اہمیں اپنی اقدار کی فکر اور اس طرز کو اپنانا چاہیے۔ اور ہر فرد کو اس بات کی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے طرز زندگی کا انتخاب کیسے کرتا نہ کہ مغرب کو اس بارے ہدایات دینی چاہیں۔ اور اس طرز زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام جدت پسندی کے خلاف ہے ۔بہت ساری مسلمان خواتین اور مرد جدید تعلیمی کیریر کے حامل ہیں ۔ پس ” دیگر” اور ” ہم” جیسی اصطلاحات جو تعصب کا باعث بنتی ہیں کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔
اکثر اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے مابین موجود انتہا پسندوں کی وجہ سے معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں اور ایک اچھے شہری ہونے کی بنا پر ہمیں ان کی مزمت بھی کرنا پڑتی ہے اور یہ درست ہے کہ ہم ایسا کرتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کیا امریکہ میں مذہبی حقوق نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل حملے کی مزمت کی ہے؟ اگر مسلمان انتہا پسندی کی مزمت کرتے ہیں تو پھر مغرب کو بھی ایسے ہی انتہا پسندی کی مزمت کرنی چاہیے۔
مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ اللہ پاک نے یہ کائنات ہمارے عقیدے، نسل اور اعتقاد سے قطع نظر ہم سب کے لیے بنائی ہے ۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی خدمت کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اگر ہم الگ یا تن تنہا ہوجائیں تو ہم اپنی فطرت کے سیاہ گوشوں کی تکمیل میں مصروف ہوجاتے ہیں اور یہ یقینا اللہ کے منصوبوں میں شامل نہیں ہے۔ دنیا کے سبھی مذاہب اور اخلاقیات انسانی مساوات کو درس دیتے ہیں پس مسلمانوں کی زندگی بھی ایسے ہی معنی رکھتی ہے جیسے دیگر مذاہب، رنگ اور نسل والوں کی۔ اور ہم سب کو مل کر یہ آواز اٹھانی چاہیے کہ ہماری زندگیاں معنی رکھتی ہیں۔ ہمیں ان تمام پابندیوں کے خلاف لڑنا چاہیے جو ہمیں معاشرے سے الگ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ جب یہ تعصب برقرار رہے گا تب تک ان لوگوں کے لیے یہ آسان رہے گا کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہیں اور ہمیں ہرگز انہیں ایسا نہیں کرنے دینا چاہیے۔
جمعرات، 3 جون 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com